ڈیوڈ دھون کو تالیوں سے زیادہ کچھ ملنے کی امید نہیں

70 کی دہائی میں مراٹھی کے مقبول و معروف اداکار دادا کونڈکے نے مراٹھی سنیما میں سیکس کامیڈی کی شروعات کی تو وہ جنس پر مبنی اپنے ذو معنی جملوں کے لیے بہت مشہور ہو گئے تھے۔ 90 کی دہائی میں ڈیوڈ دھون نے دادا کونڈکے کے ذو معنی جملوںکی طرز پر ہندی سنیما میں بھی سیکس کامیڈی کی شروعات کی۔ اس وقت ہندی سنیما پھیکے پن کے دور سے گزر رہا تھا۔ امیتابھ بچن کا جادو پھیکا پڑ رہا تھا، عمر دراز جتیندر جنوب کی اداکاراؤں کے ساتھ ناچتے ہوئے جنوب ہندوستانی فلموں کے ریمیک سے لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور انل کپور، جیکی شراف و سنجے دَت چند ہٹ فلموں کے ساتھ اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں تھے۔ ایسے ماحول میں جب ڈیوڈ دھون کی فلم ’آنکھیں‘ 1993 میں ہٹ ہوئی تو نہ صرف ڈیوڈ نے خود کو ایک تیز طرار ایکشن کامیڈی ڈائریکٹر کی شکل میں پہچانا بلکہ گووندا کو بھی ایک بہترین کامیڈین کی شناخت عطا کر دی جس کی کامک ٹائمنگ زبردست تھی اور ڈانس کا ہنر بھی کمال کا تھا۔ ان دونوں کی فلموں نے اپنی ایک الگ پہچان بنا لی۔ ان فلموں کے صرف ڈائیلاگ ہی بے کار اور ذو معنی نہیں تھے بلکہ نغمہ اور رقص بھی شہوانی تھے۔ یہ فلمیں تیز موسیقی، مسخری اور سیکس کامیڈی سے لبریز تھیں۔
حالانکہ ہندی فلم پارسی تھیٹر کی وسیع شکل ہے اور اس میں علاقائی رقص کا عکس بھی نظر آتا رہا ہے لیکن 90 کی دہائی تک یہ ڈائیلاگ اور نغموں کے فحش کھیل سے بچی ہوئی تھی۔ بے شک ہندوستانی ناظرین علاقائی رقص میں مستعمل جنسی آواز سے متعارف رہے ہیں لیکن چونکہ ہندی زبان دیہی شمالی ہندوستان کی بہ نسبت شہری زبان زیادہ رہی ہے، اس لیے فلموں میں اس طرح کا استعمال نہ صرف حیران کرنے والا رہا بلکہ قابل اعتراض بھی رہا۔
مجھے یاد ہے کرشمہ کپور اور گووندا کی ’سرکائے لیو کھٹیا جاڑا لگے‘ اور ’آ...آ... ای، او.. او... اُو‘ جیسے نغموں پر رقص کو دیکھ کر بہت سے لوگوں نے اعتراض ظاہر کیا تھا۔ اس طرح کے نغمے اور رقص نہ صرف ہمارے فنی شعور کے خلاف تھے بلکہ ان کی موسیقی بھی بہت تلخ اور شور انگیز تھی۔
دراصل موسیقی ڈیوڈ دھون کی فلموں کا سب سے کمزور شعبہ رہا ہے۔ لیکن اپنی کامک ٹائمنگ اور بے کار کے جوکس کی مدد سے گووندا اور ڈیوڈ دھون کی جوڑی کم از کم پانچ سالوں تک یکے بعد دیگرے کئی ہٹ دیتی رہی۔ دادا کونڈکے نے مراٹھی زبان میں سیکس کامیڈی کی شروعات ضرور کی لیکن وہ ایک سنجیدہ اداکار کے طور پر بھی جانے جاتے رہے اور مراٹھی مقامی ڈرامہ ’تماشہ‘ میں ان کا تعاون کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جو اس وقت بے حد خراب دور سے گزر رہا تھا۔ اور ’تماشہ‘ میں بھی ہندوستان کی دیگر مقامی ڈرامہ کی طرح ذو معنی ڈائیلاگ کی تفریح کے ساتھ ساتھ سنجیدہ سیاسی اور سماجی پیغامات بھی ہوتے تھے۔
لیکن بدقسمتی سے ڈیوڈ دھون کی کامیابی میں اسٹیج یا فلم میں اس طرح کے کسی سنجیدہ تعاون کا ہاتھ نہیں ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں ڈیوڈ دھون نے کچھ کامیڈی فلموں کی ہدایت کاری کی ہے جن کو باکس آفس پر یا تو کم توجہ ملی یا پھر وہ فلاپ ہو گئیں۔ اب ایک بار پھر وہ اپنی ہی فلم جڑواں کے ریمیک کے ساتھ نظر آ رہے ہیں جس میں سلمان خان کی جگہ ان کے بیٹے وَرون دھون نے ہیرو کا کردار نبھایا ہے۔فلم ریلیز کے بعد فوری طور پر جو باکس آفس رپورٹ آ ئی ہیں اس پر بھروسہ کیا جائے تو ان کی یہ فلم ٹھیک ٹھاک چلے گی لیکن بطور ایک ہدایت کار ڈیوڈ دھون کی جھولی میں کچھ تالیاں اور سیٹیاں ہی آئیں گی، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔