خود ہی خود کا استاد اداکار ، دلیپ کمار

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

ہندی فلم انڈسٹری کے بزرگ اداکار دلیپ کمار کی طبیعت طویل مدت سے ناساز چل رہی ہے۔ گزشتہ دنوں زیادہ طبیعت خراب ہونے کے سبب انہیں ممبئی کے لیلا وتی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، علالت کے دوران وہ مسلسل شہ سرخیوں میں بنے رہے ۔ دلیپ کمار بالی وڈ کے لئے ایک بہت بڑا نام ہے،شاید ہی کوئی بچہ ، نوجوان یا بزرگ ہو،جو ان کےنام سے واقفیت نہ رکھتا ہو۔ ان کی طبیعت خراب ہونے کی اطلاع جب منظر عام پر آئی تو مختلف فلم اسٹار ان کی عیادت کے لئے پہنچے، شاہ رخ خان اور پرینکا چوپڑا جیسے اداکاروں نے ان کے ساتھ وقت بھی گزارا۔

94 سالہ دلیپ کمار عرف محمد یوسف نے کچھ مہینے قبل اپنا پہلا فیس بک ویڈیو اپلوڈ کیا تھا جو جلد ہی سوشل میڈیا کے پسندیدہ ترین ویڈیوز میں شامل ہو گیا۔ دلیپ کمارکو ہندوستانی فلموں کے نئے باب کا آغاز کرنے والے شخص کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ ان سے پہلے تک اداکاری کے پیشہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا۔ 40 کی دہائی میں جس وقت دلیپ کمار نے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا تھااس وقت تقریباً سبھی اداکار یا تو تھیٹر سے وابستہ تھے یا فوک تھیٹر سے ، رسمی تربیت حاصل کئے بغیر دلیپ کمار کا اداکاری کے نئے باب کا آغاز کرنا اور اس شعبہ کو بلندیوں تک لے جانا عظمت کی عکاسی کرتا ہے۔ دلیپ کمار کا لہجہ اور آواز اتنی ناز ک تھی کہ انہیں تھیٹر کا اداکار تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ،یہاں تک کہ شوٹنگ اور ڈبنگ کے دوران بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ ان کی آواز صحیح طریقے سے ریکارڈ ہو سکے۔

مغل اعظم کی شوٹنگ کے دوران ڈائریکٹر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پرتھوی راج کپور کی دمدار آواز کے سامنے دلیپ کمار کی آواز ٹھہر پائے گی یا نہیں۔ لیکن اپنی آواز کی نرمی کو برقرار رکھتے ہوئے دلیپ کمار نے سلیم کے کردار کوبخوبی ادا کیا ۔ مغل اعظم کو جس نے بھی دیکھا اس نے اس بات کو جان لیا کہ دلیپ کمار کے ڈائیلاگ کسی بھی طرح پرتھوی راج کپور سے کم نہیں تھے۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا

دلیپ کمار نے بالی وڈ سنیما میں پہلی بار اداکاری کو ایک پیشہ کے طور پر لیا۔ اس زمانے میں اداکاری کے اسکول نہیں ہوتے تھے جس طرح آج کل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دلیپ کمار نہ تو کسی ادبی خاندان سے آتے تھے اور نہ ہی سنیما سے وابستہ کسی خاندان سے ۔ پھر بھی انہوں نے کڑی محنت کے ذریعے اپنے آپ کو اس قابل بنایا۔ انہوں نے اردو یا ہندی زبان پر مہارت حاصل کرنے کے لئے اداکاری پر جتنی بھی کتابیں موجود تھیں ان سب کا مطالعہ کیا اور ان پر عمل بھی کیا۔ اپنی آواز اور ڈائیلاگ کی ادائے گی پر محنت کی۔ جس کرداروں کو انہیں ادا کرنا ہوتا تھا وہ اس کے پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے مطالعہ کیا کرتے تھے اور کردار میں اسقدر ڈوب جاتے تھے کہ چند غمزدہ رول ادا کرنے کے بعد ہی انہیں ’’ٹریجیڈی کنگ‘‘ کہا جانے لگا۔ اسی سبب انہیں ماہر نفسیات کے پاس بھی جانا پڑا ۔جہاں انہیں یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ سنجیدہ ترین کردار ادا کرنے سے پر ہیز کریں۔

دلیپ کمار اپنے کردار پر اتنی محنت کرتے تھے کہ ان کا کردار کہانی اور اسکرپٹ سے بھی بڑا ہو جاتا تھا ۔ گنگاـجمنا میں گنگا کے کردار کو ایک ڈاکو سے کہیں آگے لے گئے۔ گنگا صرف ایک ڈاکو ہی نہیں تھا بلکہ پردے پر ان سبھی محروم لوگوں کا نمائندہ بن گیا، جو نا انصافی اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش میں غلط راستے پر چل پڑتے تھے۔

دیوداس کا کرداردلیپ کمار کی وجہ سے ہی اتنا مشہورہوا۔ اس کردار میں اتنی بے چینی ، محبت اور سماجی روایات کو نہ توڑ پانے کا افسوس اور غصہ ،جسے دلیپ کمار نے بخوبی پیش کیا اور کچھ اس طرح سے کہ وہ نہ صرف ایک نسل بلکہ تمام ہندوستان کے اداس اور ناکامی سے جد و جہد کر رہے نوجوانوں کے لئے ایک مشعل راہ بن گئے اور آج بھی بنے ہوئے ہیں۔

آج جب دلیپ کمار عمر دراز ہیں اور بیمار بھی ہیں تو ان کے کاموں پر توجہ دئے جانےکی ضرورت ہے۔ آج کے اداکار اسکولوں سے تربیت حاصل کر کے آتے ہیں لیکن اپنی زبان ، ادب اور تہذیب کی سمجھ ان میں نہیں ہوتی۔ اردو یا ہندی میں اگربات کی جائے تو بھی وہ انگریزی میں جواب دینا پسند کرتے ہیں ، تو ایسے اداکار مٹی سے جڑے ہوئے کرداروں کو کس طرح سے ادا کر پائیں گے۔ آج کے تمام اداکاروں کو ایک بار پلٹ کر دلیپ کمار کی اس محنت پر دھیان دینا چاہئے جو انہوں نے خود کو ایک مکمل اداکار کے طور پر ڈھالنے کے لئے کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Sep 2017, 5:40 PM