نوشاد، جنھیں شادی کے لیے دَرزی بننا پڑا... یومِ وفات پر خاص

70 کی دہائی کے بعد نوشاد نے فلموں میں موسیقی دینے سے دوری اختیار کر لی لیکن طویل عرصہ بعد سنجے خان کی پرزور گزارش پر انھوں نے ’دی گریٹ مراٹھا‘ سیریل میں یادگار موسیقی دی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اقبال رضوی

نکاح کی تیاریاں ہو چکی تھیں۔ شادی کا گھر تھا تو گیت سنگیت کا ہنگامہ بھی تھا۔ لکھنؤ کے اس گھر میں لاؤڈ اسپیکر پر اس وقت کی سپر ہٹ فلم ’رتن‘ کا گانا بج رہا تھا ’انکھیا ملا کے جیا بھرما کے چلے نہیں جانا‘۔ دولہا کے سسر نے گانے پر رد عمل دیا کہ ایسے گانے سماج کو برباد کر رہے ہیں۔ جوتے مارنے چاہیے ایسے گانے بنانے والوں کو۔ دولہا یہ سن کر سہرے کی آڑ میں اور سمٹ کر بیٹھ گیا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس کا راز کھل گیا تو قیامت ہو جائے گی۔ کیونکہ فلم ’رتن‘ کا موسیقار تو وہ خود تھا۔ لیکن نکاح ہو ہی گیا اور جس لڑکے کو کوئی بیٹی دینے پر تیار نہیں تھا وہ باقاعدہ شادی شدہ بن گیا۔

یہ قصہ ہے موسیقار نوشاد کی شادی کا۔ 40 کی دہائی میں فلموں سے جڑے لوگوں کو متوسط طبقہ میں بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ نوشاد کی شادی کی بات جب جب چلتی تو کوئی انھیں اس لیے بیٹی دینے کو تیار نہیں ہوتا کہ لڑکا تو فلموں میں مراثی کا کام کرتا ہے۔ ایسی صورت میں نوشاد کے والد واحد علی نے کہنا شروع کیا کہ ان کا بیٹا ممبئی میں درزی کا کام کرتا ہےاور آخر کار اس درزی کی شادی ہو گئی۔ جب سسرال میں نوشاد کا راز کھلا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس وقت تک نوشاد دولت، شہرت اور انعامات کے دَم پر بہت بڑی شخصیت بن چکے تھے۔

نوشاد کی عظمت کو سمجھنے کے لے ایک بار ان کی موسیقی سے سجے کچھ نغموں پر نظر ڈالنی ہوگی...

جب دل ہی ٹوٹ گیا (شاہجہاں)، آواز دے کہاں ہے (انمول گھڑی)، انکھیاں ملا کے جیا بھرما کے چلے نہیں جانا (رتن)، من تڑپت ہری درشن کو آج (بیجو باؤرا)، او دور کے مسافر ہم کو بھی ساتھ لے لے (اڑن کھٹولہ)، گائے جا گیت ملن کے تو اپنی، اور... یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے (میلہ)، محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے، اور... پیار کیا تو ڈرنا کیا (مغل اعظم)، میرے پیروں میں گھنگھرو بندھا دے تو پھر میری چال دیکھ لے (سنگھرش)، مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے (کوہِ نور)، ڈھونڈو ڈھونڈو رے ساجنا مورے کان کا بالا (گنگا جمنا)، آج کی رات میرے دل کی سلامی لے لے (رام اور شیام)۔ یہ سبھی نغمے ہندوستانی فلم موسیقی کی وراثت ہیں۔

ایسے عظیم موسیقار کی عظمت کی کہانی بہت جدوجہد بھری اور قابل ترغیب ہے۔ 25 دسمبر 1919 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے نوشاد کے والد کو نوشاد کی موسیقی میں دلچسپی بالکل پسند نہیں تھی۔ نوشاد جب اسکول میں پڑھتے تھے تبھی موسیقی کے آلات انھیں اپنی طرف اس قدر کھینچتے تھے کہ انھوں نے ان آلات کو فروخت کرنے والی ایک دکان پر جز وقتی ملازمت کر لی۔ روزانہ موسیقی کے آلات کی صفائی کرنے کے بہانے نوشاد انھیں چھوتے اور مسحور ہو جاتے۔ کبھی کبھی دکاندار کی نظر بچا کر وہ ہارمونیم اور ستار بجانے کی کوشش بھی کر لیتے تھے۔ ایک دن دکاندار نے انھیں یہ کرتے دیکھ لیا تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے نوشاد کو ایک ہارمونیم تحفہ میں دے دیا۔ نوشاد اس کو لے کر جب گھر پہنچے تو والد ان پر ناراض ہوئے۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ یا تو موسیقی چن لو یا پھر فیملی۔ اور نوشاد نے موسیقی کو چن لیا۔

نوشاد 1937 میں ممبئی آ گئے۔ اس سے پہلے وہ لکھنؤ میں گھر والوں سے چھپ کر اپنے وقت کے کچھ بڑے موسیقاروں سے ہارمونیم اور ستار بجانا سیکھ چکے تھے۔ ممبئی میں انھوں نے استاد جھنڈے خاں سے فلم موسیقی کی باریکیاں سیکھیں۔ وہ ’نیو تھیٹر‘ کمپنی سے جڑے استاد مشتاق حسین کے آرکیسٹرا میں پیانو بجانے والے کی حیثیت سے شامل ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کھیم چند پرکاش کے اسسٹنٹ کی شکل میں کام کیا۔ ایک آزاد موسیقار کی شکل میں ان کی پہلی ریلیز فلم تھی ’پریم نگر‘ (1940)۔ اس کے بعد بڑی کامیابی کے لیے نوشاد کو کچھ انتظار کرنا پڑا۔ تقریباً 9 فلموں میں موسیقی دینے کے بعد 1944 میں جب ’رتن‘ ریلیز ہوئی تو نوشاد چھا گئے۔ 1946 میں ریلیز ہوئی فلم ’انمول گھڑی‘ کے بعد تو نوشاد کا نام فروخت ہونے لگا۔ فلمیں بینر، ڈائریکٹر، ہیرو یا ہیروئن کی جگہ نوشاد کے نام پر بکنے لگی۔ نوشاد نے تقریباً 65 فلموں میں موسیقی دی جن میں تین فلمیں 100 ہفتہ سے زیادہ، 9 فلمیں 50 ہفتہ سے زیادہ اور 26 فلمیں 25 ہفتہ سے زیادہ چلیں۔

70 کی دہائی کے بعد نوشاد اور ان کی نسل کے موسیقاروں کو بدلتے وقت کے مدنظر اپنے پیر سمیٹ لینے پڑے۔ لیکن اس وقت تک نوشاد ہندوستانی فلم موسیقی کو اتنا خوشحال کر چکے تھے کہ 1982 میں انھیں سنیما کے سب سے بڑے ایوارڈ ’دادا صاحب پھالکے‘ سے نوازا گیا۔ برسوں خاموش رہنے کے بعد سنجے خان کی گزارش پر نوشاد نے ’دی گریٹ مراٹھا‘ سیریل میں یادگار موسیقی دی۔ اس کے بعد پھر ایک طویل خاموشی کے بعد 2005 میں انھوں نے اکبر خان کی فلم ’تاج محل‘ میں موسیقی دی۔ یہی ان کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ 5 مئی 2006 کو ان کا انتقال ہو گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔