جاوید اختر : لفظوں کا جادو بکھیرنے والے جادوگر

بالی ووڈ کے ساتھ ساتھ اُردو ادب میں منفرد مقام بنا چکے جاوید اختر کی آج یومِ پیدائش ہے۔ انھوں نے یہ مقام حاصل کرنے کے لیے جو جدوجہد کی وہ صرف انہی کا خاصہ تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

جاوید اختر ایک ایسا نام ہے جس کے زبان پر آتے ہی ’بارڈر‘، ’لگان‘ اور ’سلسلہ‘ جیسی فلموں کے نغمے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ اپنے بہترین نغموں کی وجہ سے بالی ووڈ انڈسٹری میں منفرد مقام بنا چکے جاوید اختر کے بارے میں یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ نغمہ نگار بننے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ نغمہ نگاری تو انھوں نے یش چوپڑا کی ضد اور دباؤ کے بعد شروع کی۔ انھیں نغمہ نگاری کی ذمہ داری یش چوپڑا نے اپنی فلم ’سلسلہ‘ میں سونپی تھی اور اس فلم کے نغموں کو ایسی پذیرائی ملی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی فلموں کے لیے نغمہ لکھنے لگے۔ لیکن انھوں نے ہمیشہ معیار کا خیال رکھا اور یہی وجہ ہے کہ یش چوپڑا کے بعد رمیش سپّی، شیکھر کپور، جے پی دتہ اور آشوتوش گواریکر جیسے ہدایت کاروں نے فلموں کے لیے ان سے نغمے لکھوائے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جاوید اختر نغمہ نگار نہیں بننا چاہتے تھے تو پھر آخر فلم انڈسٹری میں قدم کس مقصد سے رکھا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ 17 جنوری 1945 میں گوالیار شہر میں پیدا ہوئے جاوید اسکرپٹ رائٹنگ میں اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے اور انھوں نے اس میدان میں کامیابی بھی حاصل کی۔ بلکہ ایک وقت تو ایسا تھا جب وہ اپنی اسکرپٹ رائٹنگ کی وجہ سے لوگوں میں بہت مشہور ہوئے تھے اور وہ زمانہ 70 اور 80 کی دہائی کا تھا۔ اس دور میں سلیم خان کے ساتھ ان کی جوڑی کامیابی کی دلیل ہوا کرتی تھی۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان دونوں نے مل کر کم و بیش دو درجن فلموں کی اسکرپٹ رائٹنگ کی جن میں 22 فلمیں ہٹ ہوئیں۔ فلم ’انداز‘ سے لے کر ’مسٹر انڈیا‘ تک جاوید اختر نے سلیم خان کے ساتھ مل کر اسکرپٹ رائٹنگ کو ایک نیا انداز دیا۔ فلم ’شعلے‘ کا نام تو جب بھی لیا جاتا ہے امیتابھ بچن، دھرمیندر اور ہیما مالنی سے پہلے سلیم-جاوید کا ہی نام زبان پر آتا ہے اور یہ کسی بھی اسکرپٹ رائٹر کے لیے بہت بڑی بات ہے کیونکہ ہندوستان میں فلموں کی پہچان اس کے ہیرو اور ہیروئن سے کی جاتی ہے۔

یہاں جاوید اختر اور سلیم جاوید کی اسکرپٹ پر مبنی فلم ’دیوار‘ کا تذکرہ بھی کرنا ضروری ہوگا کیونکہ اس فلم نے امیتابھ بچن کو فلم انڈسٹری میں ’اینگری ینگ مین‘ کی پہچان دی اور پھر آگے چل کر انھیں سپر اسٹار کا درجہ ملا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس وقت جاوید اختر نے ’زنجیر‘، ’ترشول‘، ’ڈان‘، ’کالا پتھر‘ اور ’شان‘ جیسی کئی فلموں کی اسکرپٹ لکھی جس میں امیتابھ بچن کی زبان سے ادا ہونے والے جاوید اختر کے الفاظ کی خوب دھوم مچی۔ ڈائیلاگ جاوید اختر کے تھے اور شہرت امیتابھ بچن کو مل رہی تھی۔

جہاں تک جاوید اختر کے کیریر کا سوال ہے، ان کے لیے سب کچھ بہت آسان نہیں تھا جیسا کہ ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جاں نثار اختر جیسے مشہور و معروف ترقی پسند ادیب اور صفیہ اختر جیسی گلوکارہ اور ٹیچر کا بیٹا ہونے کے باوجود انھیں اپنے کیریر کے دنوں میں کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ اسکرپٹ رائٹنگ میں اپنا کیریر بنانے کے خواہاں جاوید اختر جب اپنی اسکرپٹ لے کر ایک پروڈیوسر کے پاس گئے تو اس نے بری طرح ڈانٹ لگائی۔ پروڈیوسر کو جاوید کی اسکرپٹ اس قدر بری لگی کہ انھوں نے کاغذ کو موڑ کر ان کے منھ پر مار دیا اور کہا کہ ’’تم زندگی میں کبھی رائٹر نہیں بن سکتے۔‘‘ لیکن جاوید اختر کے پاس ایسے پَر موجود تھے کہ ان کو پرواز کرنے سےکون روک سکتا تھا۔ اپنے والد کے ذریعہ ’جادو‘ نام سے پکارے جانے والے جاوید اختر نے اپنی ہنر کا جادو دکھایا اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر بالی ووڈ میں قدم رکھا۔ یہ 1964 کے بعد کا زمانہ تھا جب ان کے پاس رہنے اور کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوا کرتے تھے اور کئی بار درختوں کے نیچے سو کر رات گزارنی پڑی۔ کئی بار تو انھوں نے معروف ڈائریکٹر کمال امروہی کے اسٹوڈیو میں بھی رات گزاری۔ لیکن 1971 میں ’انداز‘، ’ہاتھی میرے ساتھی‘ اور ’ادھیکار‘ جیسی فلموں نے ان کےقدموں کو مضبوط بنا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 1981 میں نغمہ نگاری کی اننگ شروع کرنے تک وہ اسکرپٹ رائٹر کی شکل میں اپنا لوہا منوا چکے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ کمال امروہی کے اسٹوڈیو کے کمرے میں موجود الماری کھولنے پر جاوید اختر کو کچھ پوشاکیں اور فلم فیئر ایوارڈ کی ٹرافیاں نظر آئیں جو کہ مینا کماری کی تھیں۔ انھوں نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ایک دن وہ بھی ایسی ہی ٹرافیاں جیتیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جاوید اختر اپنا یہ خواب مکمل کر چکے ہیں۔ اپنے ہنر کا ’جادو‘ دکھا کر جاوید اختر نے درجنوں ٹرافیاں اپنے گھر کی الماری میں سجا لی ہیں۔ بہترین نغمہ نگاری کے لیے پانچ قومی ایوارڈ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے 14 فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کئےہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 7 فلم فیئر ایوارڈ انھیں اسکرپٹ رائٹنگ کے لیے ملے ہیں اور 7 نغمہ نگاری کے لیے۔ گویا کہ انھوں نے دونوں ہی شعبوں میں اپنی مثالی خدمات بالی ووڈ کو پیش کی ہیں۔ اتنا ہی نہیں جاوید اختر کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1999 میں انھیں ’پدم شری‘ اور 2007 میں ’پدم بھوشن‘ اعزاز سے نوازا گیا۔ بالی ووڈ سے الگ اردو ادب میں بھی ان کی خدمات بے بہا ہیں جو ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں یہاں یہ لکھنا کافی ہوگا کہ ان کے شعری مجموعہ ’لاوا‘ کے لیے 2013 میں انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔

اس وقت جب کہ جاوید اختر اپنی 73ویں سالگرہ منا رہے ہیں، بالی ووڈ میں ان کی سرگرمیاں ضرور کم ہو گئی ہیں لیکن اردو ادب میں ان کی خدمات زور و شور سے جاری ہیں۔ روح میں اتر جانے اور ذہن کو جھنجھوڑ دینے والی ان کی نظمیں ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں شہرت حاصل کر رہی ہیں۔ شعری مجموعہ ’لاوا‘ میں موجود ان کی نظم ’آنسو‘ کی بات کریں یا پھر نظم ’شطرنج‘ کی، ’نیا حکم نامہ‘ کا مطالعہ کریں یا پھر ’بھوک‘ کا، یہ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور جب ان نظموں کو آپ ان کی آواز میں سنیں گے تو ایک ایسے سحر کا احساس ہوگا جیسے الفاظ موتیوں کی طرح ان کی زبان سے جھر رہے ہیں۔ اُردو شاعری میں موجودہ وقت میں ان کی اعلیٰ مرتبت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جس محفل میں وہ اپنی نظم سناتے ہیں وہ محفل ان کے نام ہو جاتی ہے۔ جاوید اختر کے والد جاں نثار اختر کو شاید اس کا اندازہ بہت پہلے ہو گیا تھا اسی لیے انھوں نے اپنے بچے کے لیے ’جادو‘ نام کا انتخاب کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Jan 2018, 7:12 PM