فلم ریویو: خاتون مخالف ’کبیر سنگھ‘ بننے سے قبل شاہد کپور کو ایک بار ضرور غور کرنا چاہیے تھا

فلم ’کبیر سنگھ‘ کا ہیرو مجموعی طور پر خاتون مخالف ہے جو لڑکیوں کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ فلم دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ آج کے وقت میں بھی کیا یہ سمجھنا اتنا مشکل ہے کہ عورتیں بھی ’انسان‘ ہوتی ہیں؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

آخر کار یہ مردوں کی دنیا ہے۔ ’کبیر سنگھ‘ فلم سب سے زیادہ یہی ثابت کرتی ہے۔ کیونکہ اس کا ہیرو نہ صرف اپنے لیے پہلی لڑکی خود ہی چن لیتا ہے جسے بعد میں خود ہی ہیرو سے پیار ہو جاتا ہے(؟)۔ وہیں جب وہ اس لڑکی سے شادی نہیں کر پاتا تو اس رشتے سے خود کو نکالنے کے لیے پھر دوسری لڑکی بھی خود ہی منتخب کر لیتا ہے۔ یعنی عورتوں کو صرف اس کے حکم کی تعمیل کرنی ہے... بس۔

فلم میں کہیں کہیں یہ ذکر بھی ہے کہ ہیرو، ہیروئن سے ذات میں فرق ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کر پاتا۔ لیکن یہ تذکرہ اتنا سطحی ہے کہ کوئی سنجیدہ چھاپ نہیں چھوڑتا۔ پوری فلم کی کہانی بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ ایک غصیل لڑکا ہے جسے ایک لڑکی سے پیار ہو جاتا ہے۔ اس سے وہ شادی نہیں کر پاتا تو خود کو نشے میں ڈبو لیتا ہے اور آخر کار اسے وہ لڑکی مل جاتی ہے۔


فلم کا ہیرو ’کبیر سنگھ‘ مجموعی طور پر ایک خاتون مخالف سیکسِسٹ قسم کا شخص ہے، جو لڑکیوں کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ آج کے وقت میں ایک فلم میکر کو ایسی فلم کیوں بنانی چاہیے، جب خواتین کے خلاف ہو رہے جرائم میں اتنا اضافہ ہو رہا ہے؟ کیا یہ سمجھنا اتنا مشکل ہے کہ عورتیں بھی ’انسان‘ ہوتی ہیں، ان کی اپنی پسند-ناپسند ہو سکتی ہے؟

آخرکار آپ اکیسویں صدی میں عورت کی ایک ایسی شبیہ کو گلیمرائز نہیں کر سکتے جو خاموش رہتی ہے، ہر بات مان لیتی ہے اور اس کی اپنی کوئی شخصیت ہی نہیں۔ اگر آپ ایسا کردار بُنتے بھی ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دَبّو لڑکی ایک اچھی پروفیشنل بھی ہو (اس فلم میں ڈاکٹر) اور ایک اپنے آپ میں گم رہنے والے پرتشدد اور اس پر مالکانہ حق ظاہر کرنے والے لڑکے کو اپنا بوائے فرینڈ بنا لے؟


یہ فلم تیلگو فلم ’ارجن ریڈی‘ کا ریمیک ہے۔ ہدایت کار سندیپ ریڈی وَنگا کی یہ فلم دیکھتے ہوئے آپ لگاتار یہ سوچتے رہتے ہیں کہ آپ آخر کار یہ پھیکی اور مایوس کن فلم کیوں دیکھ رہے ہیں۔ یہ نہ صرف دقیانوسی، خاتون مخالف ہے بلکہ رومانی بھی نہیں ہے اور کچھ دیر بعد اُباؤ ہو جاتی ہے۔

فلم میں ڈھیر ساری گالیوں کا آزادی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ گالیوں میں بھی ظاہر ہے نشانہ عورتوں کو ہی بنایا جاتا ہے۔ پھر ایسا لگا کہ شاید یہ فلم اس غصے کے بارے میں بات کر رہی ہے جو آج کی بے سمت اور فرسٹریٹیڈ نوجوان محسوس کرتا ہے، جس کے پاس نہ تو طاقت ہے نہ ہی اقدار یا بڑے مقصد کی وہ زمین جو اسے مستحکم کر سکے۔ لیکن یہ فلم اتنا سطحی ہے کہ اس بارے میں بھی بات نہیں کرتی۔


آپ کو یاد ہے ’دیوداس‘ نام کا کردار جو اس ملک کی کسی بھی نوجوان نسل کو ایک بار تو اپنی طرف کھینچتا ہی ہے۔ کہانی ’دیوداس‘ کی بھی بس ایک کشمکش کی اور ادھوری محبت کی کہانی ہے۔ لیکن وہ پرتشدد نہیں ہے، نہ ہی عورتوں کے لیے تضحیک پر مبنی برتاؤ دکھاتا ہے۔ دیوداس میں انٹنسٹی ہے جو ہر نسل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کبیر سنگھ ایک سطحی، گالی گلوچ اور مار پیٹ سے بھرپور کردار ہے، نہ تو متوجہ کرتا ہے نہ ہی کوئی چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔

شاہد کپور ایک اچھے اور لائق اداکار ہیں۔ انھیں یہ تو سمجھنا ہی چاہیے کہ صرف گالی دینا اور مار پیٹ کرنا اچھی اداکاری نہیں سمجھی جا سکتی۔ ہیروئن کے کردار میں کیارا اڈوانی کے لیے کچھ خاص کرنے کو نہیں تھا۔ دراصل اس فلم کا کوئی بھی کردار متاثر نہیں کرتا، سوائے کچھ دیر کے لیے کبیر کے دوست شیو کے کردار میں سوہم مجومدار کے۔


فلم کی موسیقی بے کار اور مایوس کن ہے۔ آج کل ہندی فلموں میں چلن ہو گیا ہے کہ ہلکے رومانی یا مایوسی والے نغموں کو بھی اونچے اسکیل سے گانے کا۔ نتیجہ... سبھی گلوکار چیختے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ آخر تک آتے آتے آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آپ یہ فلم کیوں دیکھ رہے ہیں اور فلمساز نے یہ فلم کیوں بنائی؟ اس لیے بہتر ہے کہ اس فلم پر وقت اور پیسہ ضائع نہ کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Jun 2019, 11:10 AM