انوراگ کشیپ: ’سینما کا باغی‘ اور ان کی پہلی فلم کی ان کہی داستان

انوراگ کشیپ کی پہلی فلم ’پانچ‘ پر سینسر بورڈ نے پابندی لگا دی لیکن اسی ناکامی نے انہیں ہندوستانی سینما کا باغی فلم ساز بنایا۔ بعد کی فلموں نے بالی ووڈ کو حقیقت پر مبنی ایک نیا رخ دیا

<div class="paragraphs"><p>انوراگ کشیپ/ آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

فلم ڈائریکٹر انوراگ کشیپ کا نام سنتے ہی ذہن میں بغاوت، جرْت مندانہ اور سچائی سے بھرپور کہانیوں کی جھلک ابھرتی ہے۔ ان کا سینما صرف تفریح نہیں بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جو سماج کو آئینہ دکھاتا ہے۔

انوراگ کشیپ ان ہندوستانی فلم سازوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے بالی ووڈ کو نیا زاویہ اور حقیقت پر مبنی اسلوب دیا۔ ان کا جنم 10 ستمبر 1972 کو اتر پردیش کے گورکھپور میں ہوا۔ وہ ہدایتکار، اسکرین رائٹر، پروڈیوسر اور اداکار کے طور پر اپنی ہمہ جہت صلاحیت کے لیے جانے جاتے ہیں۔

‘بلیک فرائیڈے‘، ’گینگز آف واسع پور‘، ’دیو ڈی‘، ’من مرضیاں‘ اور ’اگلی‘ جیسی فلموں میں ان کے منفرد انداز کی جھلک ملتی ہے۔ ان فلموں میں سماج کی تلخ حقیقت اور کرداروں کی گہرائی کھل کر سامنے آتی ہے۔ انوراگ کو آزاد یا انڈیپینڈنٹ سینما کا سب سے نمایاں چہرہ مانا جاتا ہے اور اکثر انہیں متوازی سینما کی نمائندگی کرنے والا کہا جاتا ہے۔ ان کی فلموں کا انداز بغاوت اور حساسیت سے لبریز ہوتا ہے، جس نے ہندی فلموں کو ایک نیا رخ دیا۔

لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انوراگ کشیپ کی پہلی ہی فلم سینسر بورڈ نے ریلیز ہونے سے روک دی تھی۔ ان کی زندگی اور فن پر لکھی گئی کتاب ’انوراگ کشیپز ورلڈ: اے کرٹیکل اسٹڈی‘ میں اس کا ذکر موجود ہے۔


یہ واقعہ 2001 کا ہے، جب انہوں نے اپنی پہلی ہدایتکاری فلم ’پانچ‘ بنائی۔ یہ ایک ڈارک کرائم تھرلر تھی جو پانچ دوستوں کی زندگی کے گرد گھومتی تھی۔ فلم میں انوراگ کا جنون اور محنت صاف دکھائی دیتی تھی لیکن جب فلم سینسر بورڈ کے پاس پہنچی تو اراکین حیران رہ گئے۔ فلم میں حد سے زیادہ تشدد، گالی گلوچ اور منشیات کے مناظر تھے، جو اس وقت کے ہندی سینما کے لیے بالکل نیا تھا۔ بورڈ نے فلم کو پاس کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی۔

سینسر بورڈ نے فلم میں کئی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا لیکن انوراگ نے ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ ان کے فنکارانہ وژن سے سمجھوتہ ہوگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فلم مکمل ہونے کے باوجود ریلیز نہ ہو سکی۔ یہ دھچکا ان کے لیے ذاتی اور تخلیقی سطح پر بڑا صدمہ تھا۔

تاہم ’پانچ‘ کی ناکامی ان کے کیریئر کا اختتام ثابت نہ ہوئی بلکہ ایک نئی شروعات تھی۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اس تجربے نے ان کے فلمی انداز کو مزید نکھارا۔ انہوں نے سیکھا کہ نظام سے لڑنے کا سب سے مؤثر طریقہ اپنی تخلیقی صلاحیت پر یقین رکھنا ہے۔

جو سچائی وہ ’پانچ‘ میں دکھانا چاہتے تھے، وہی ان کے بعد کے کام کی پہچان بنی اور ’بلیک فرائیڈے‘ اور ’گینگز آف واسع پور‘ جیسی شاہکار فلمیں اسی جدوجہد سے وجود میں آئیں۔ ان میں بھی تشدد، زبان کی سختی اور سماج کی سیاہ حقیقت کو بغیر کسی فلٹر کے پیش کیا گیا۔

یوں انوراک کشیپ نے اپنی بغاوت کو ہندی سینما کی پہچان بنا دیا اور خود کو ایک ایسے فلم ساز کے طور پر ثابت، جو سچ دکھانے کے لیے کسی بھی سمجھوتے پر تیار نہیں۔

مآخذ: آئی اے این ایس

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔