انجان: تین دہائیوں تک فلمی دنیا کو مسحور کرنے والے نغمہ نگار

نغمہ نگار انجان نے تین دہائیوں تک ہندوستانی سنیما کو اپنے رومانی اور سدا بہار نغموں سے سنوارا۔ امیتابھ بچن اور متھن کی فلموں کے مقبول گیت ان کی پہچان بنے۔ 13 ستمبر 1997 کو وہ دنیا سے رخصت ہوئے

<div class="paragraphs"><p>نغمہ نگار انجان / اے آئی سے بہتر کی گئی تصویر</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

تقریباً تین دہائیوں تک اپنے نغموں سے ہندوستانی فلم انڈسٹری کو مسحور کرنے والے معروف نغمہ نگار انجان آج بھی اپنے رومانی اور سدا بہار نغموں کی بدولت مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ 28 اکتوبر 1930 کو بنارس میں پیدا ہوئے انجان بچپن ہی سے شعر و م شاعری کے دلدادہ تھے۔ وہ مقامی مشاعروں اور شعری نشستوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔

انجان نے نغمہ نگاری کا آغاز 1953 میں اداکار پریم ناتھ کی فلم ’گولکنڈا کے قیدی‘ سے کیا۔ اس فلم کے لئے انہوں نے ’لہر یہ ڈولے کوئل بولے‘ اور ’شہیدوں امر ہے تمہاری کہانی‘ جیسے نغمے تحریر کئے لیکن یہ فلم انہیں کوئی خاص پہچان نہ دلا سکی۔ جدوجہد کے اس دور میں انہوں نے کئی کم بجٹ فلموں میں بھی کام کیا لیکن کامیابی ان سے کوسوں دور رہی۔ اسی دوران ان کی ملاقات موسیقار جی ایس کوہلی سے ہوئی اور فلم ’لمبے ہاتھ‘ کے لیے لکھا گیا نغمہ ’مت پوچھ میرا ہے کون وطن‘ ان کے لیے پہلی بڑی کامیابی ثابت ہوا۔

تقریباً دس برس کی مسلسل جدوجہد کے بعد 1963 میں پریم چند کے ناول پر مبنی فلم ’گودان‘ میں پنڈت روی شنکر کی موسیقی پر لکھا گیا نغمہ ’چلی آج گوریا پیا کی نگریا‘ بے حد مقبول ہوا اور انجان کی پہچان مستحکم ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنا لی۔

ساٹھ کی دہائی میں انجان نے ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ غیر فلمی گیت بھی تحریر کیے۔ موسیقار شیام ساگر کی دھنوں پر لکھے گئے ان کے کئی گیت محمد رفیع، منا ڈے اور سمن کلیانپور جیسے مشہور گلوکاروں نے گائے۔ ان میں رفیع کی آواز میں ’میں کب گاتا‘ خاص طور پر مقبول ہوا۔ اسی دوران انہوں نے بھوجپوری فلموں کے لیے بھی کئی نغمے لکھے اور اس زبان کی فلمی دنیا میں بھی اپنی شناخت بنائی۔


انجان کے فلمی کیریئر کی سب سے بڑی پہچان امیتابھ بچن پر فلمائے گئے نغمے ہیں۔ 1976 کی فلم ’دو انجانے‘ کے نغمے ’لک چھپ لک چھپ جاؤ نا‘ کی کامیابی کے بعد انجان اور امیتابھ بچن کا ساتھ فلمی تاریخ میں امر ہو گیا۔ ’برسوں پرانا یہ یارانا‘، ’خون پسینے کی ملے گی تو کھائیں گے‘، ’روتے ہوئے آتے ہیں سب‘، ’او ساتھی رے تیرے بنا بھی کیا جینا‘ اور ’کھائے کے پان بنارس والا‘ جیسے نغمے نہ صرف اس زمانے میں سپرہٹ ہوئے بلکہ آج بھی سامعین کو جھومنے پر مجبور کرتے ہیں۔

امیتابھ بچن کے ساتھ ساتھ انجان نے متھن چکرورتی کی فلموں میں بھی کئی سپرہٹ نغمے دیے۔ ’ڈسکو ڈانسر‘، ’ڈانس ڈانس‘، ’قسم پیدا کرنے والے کی‘، ’کرشمہ قدرت کا‘، ’کمانڈو‘، ’ہم انتظار کریں گے‘، ’داتا‘ اور ’دلال‘ جیسی فلموں میں ان کے نغمے فلموں کی کامیابی کی ضمانت ثابت ہوئے۔

مشہور فلمساز اور ہدایت کار پرکاش مہرا کی فلموں کے ساتھ انجان کا تعاون بھی قابل ذکر ہے۔ ’زنجیر‘ سے لے کر ’شہنشاہ‘ تک کئی فلموں میں انجان کے گیتوں نے ناظرین کو متاثر کیا اور پرکاش مہرا کے سینما کو لازوال بنا دیا۔ انجان کے پسندیدہ موسیقاروں میں کلیان جی-آنند جی کا نام نمایاں ہے، جن کے ساتھ انہوں نے کئی یادگار گیت تخلیق کیے۔

اپنی تین دہائیوں پر محیط فلمی کیریئر میں انجان نے تقریباً 200 فلموں کے لیے نغمے تحریر کیے۔ ان کے گیتوں میں رومانویت، سادگی اور عام انسان کی زندگی کی جھلک نمایاں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نغمے عوام کے دلوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔


انجان نے 13 ستمبر 1997 کو 67 برس کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کہا۔ وہ اپنے پیچھے وہ خزانہ چھوڑ گئے جو آج بھی فلمی دنیا کو روشن کرتا ہے۔ ان کے بیٹے سمیر انجان نے بھی نغمہ نگاری کے میدان میں اپنی الگ شناخت بنائی اور والد کے ورثے کو آگے بڑھایا۔

انجان کو ان کے مداح آج بھی ان کے سچے اور دل سے نکلے ہوئے الفاظ کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے گیت نہ صرف ماضی کی یاد دلاتے ہیں بلکہ آج کے سامعین کو بھی دل کی گہرائیوں تک چھو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انجان کا نام ہندی فلمی دنیا کے ان چند نغمہ نگاروں میں شامل ہے جن کی یاد ہمیشہ تازہ رہے گی۔

(مآخذ: یو این آئی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔