قادر خان: امیتابھ کو امِت کہنا جنہیں بھاری پڑ گیا

یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ جب قادر خان کو کام ملنا بند ہو گیا تو دبی زبان میں انہوں نے اس کا ذمہ دار امیتابھ بچن کو قرار دیا۔ یو ٹیوب پر موجود ایک انٹرویو میں قادر خان نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

اقبال رضوی

جب امیتابھ بچن کا سورج چمک رہا تھا تب ان کی کامیابی کے پیچھے منموہن دیسائی، پرکاش مہرا اور سلیم جاوید کی جوڑی کا ہاتھ مانا جاتا تھا، انہوں نے امیتابھ کو لے کر سب سے زیادہ ہٹ فلمیں پیش کیں۔ لیکن اس وقت ایک سچائی کا کسی نے اعتراف نہیں کیا کہ امیتابھ بچن کی بے مثال کامیابی میں ڈائیلاگ رائٹر قادر خان کا اہم کردار رہا۔ صرف ڈائیلاگ لکھنے میں ہی نہیں بلکہ کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے یہ بتانے میں بھی قادر خان نے کافی محنت کی۔ قادر خان جس فلم کے لئے امیتابھ کے ڈائیلاگ لکھتے تھے انہیں اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے امیتابھ کو دے دیتے تھے تاکہ وہ انہیں بار بار سن سکیں۔ امیتابھ اور قادر خان کی یہ دوسری کئی سال تک چلی۔

یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ جب قادر خان کو کام ملنا بند ہو گیا تو دبی زبان میں انہوں نے اس کا ذمہ دار امیتابھ بچن کو قرار دیا۔ یو ٹیوب پر موجود ایک انٹرویو میں قادر خان نے اس کی وجہ کچھ یوں بیان کی تھی کہ امیتابھ کا جادو جب پورے ملک میں سر چڑھ کر بول رہا تھا تب محمود، پرکاش مہرا اور منموہن دیسائی کے علاوہ شاید قادر خان ہی ایسے شخص تھے جو امیتابھ کو امت کہہ کر بلاتے تھے۔ ورنہ تمام لوگ امیتابھ کو امت جی کہتے تھے۔ یہی بات امیتابھ بچن کو دھیرے دھیرے اتنی ناگوار گزرنے لگی کہ انہوں نے قادر خان سے دوری بنا لی۔

ظاہر ہے کہ اسی اور نوے کی دہائی کے وسط میں اگر کسی شخص کے خلاف امیتابھ بچن نے ناراضگی کا اظہار کر دیا تو اس کے برے دن تو شروع ہو ہی جانے تھے۔ لیکن اس برے دور میں بھی قادر خان نے اپنی قابلیت کے دم پر فلمی دنیا میں جو مقام پیدا کیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال بن گیا۔

سن 1937 میں کابل میں پیدا ہوئے قادر خان کی شروعاتی زندگی بے حد غریبی میں گزری۔ ان کا خاندان غریبی سے لڑنے کے لئے کابل سے ممبئی آ گیا لیکن حالات بہتر نہ ہو سکے۔ قادر خان نے ہمیشہ اپنی ماں کا ایک کہنا ضرور مانا کہ بیٹا کچھ بھی ہو جائے پڑھائی مت چھوڑنا۔ زور زور سے ڈائیلاگ بولنا قادر خان کا شوق تھا۔ لوگ ان کی آواز کا مذاق نہ اڑائیں اس لئے وہ قبرستان میں جاکر ڈائیلاگ بولا کرتے تھے۔ ان کی اداکاری سے متاثر ہوکر محلہ کے ایک ڈرامہ گروپ نے انہیں اپنے ساتھ لے لیا۔ یہیں سے قادر خان کی رائٹنگ اور ایکٹنگ کی رسمی طور سے ٹریننگ شروع ہوئی۔ وہاں اسکولی کتابوں سے علیحدہ ان کا تعارف کہانی، ناول اور شاعری سے ہوا۔ اپنی ماں کی بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے قادر خان نے برے سے برے معاشی حالات میں بھی اسکولی تعلیم کو جاری رکھا۔ پڑھائی ختم کرنے کے بعد وہ ایک پالی ٹیکنک ٹیچر بن گئے۔

اسی دور میں ان کے لکھے ایک ڈرامہ ’لوکل ٹرین‘ کو ایک مقابلہ میں انعام سے نوازا گیا۔ اس مقابلہ کی جیوری میں معروف مصنف اور فلم ساز راجیندر سنگھ بیدی اور ان کے بیٹے نریندر بیدی اور کامنی کوش بھی شامل تھے۔ نریندر بیدی نے قادر خان کی قابلیت کو پہنچانتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ ’جوانی دیوانی‘ فلم کے ڈائیلاگ لکھنے کا کام دیا۔ قادر کے ایک اور ڈرامہ سے متاثر ہو کر دلیپ کمار نے انہیں اپنی فلم ’بیراگ‘ اور ’سگینا‘ میں اداکاری کا موقع دیا۔ لیکن راجیش کھنہ کی اداکاری والی فلم ’داغ‘ قادر خان کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم تھی۔

فلمی دنیا میں رائٹر کے طور پر قادر خان کی پہچان مضبوط کرنے والی پہلی فلم منموہن دیسائی کی ’روٹی‘ ثابت ہوئی جو 1973 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ منموہن دیسائی کی ہر فلم میں نظر آنے لگے۔ ڈائیلاگ رائٹر کے طور پر قادر خان کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ عوام بولچال والی زبان کو ڈائیلاگ میں استعمال کرتے تھے جو زبان پر چڑھ جاتے تھے۔ اسی کی دہائی میں پردے پر امیتابھ کا قد اونچا بنائے رکھنے میں قادر خان کے ڈائیلاگس کا اہم کردار رہا۔ مسٹر نٹورلال، شرابی، قلی، دیش پریمی، لاوارس، سہاگ، گنگا جمنا سرسوتی، ستے پے ستا، نصیب اور مقدر کا سکندر سمیت لاتعداد فلموں میں امیتابھ بچن کو قادر خان کے ڈائیلاگس کا سہارا ملا۔

ایس کی دہائی کے وسط میں قادر خان نے پروڈیوسروں کی مانگ پر گلی محلوں اور نکڑوں پر بولے جانی والی باتوں کی بنیاد پر دو معنی ڈائیلاگ لکھنے شروع کر دئے۔ اس وقت فلم کو ہٹ کرانے کے لئے پروڈیوسروں کو شاید یہی سب سے اثر دار ہتھیار محسوس ہوا ہوگا۔ اپنے ڈائیلاگس کے سہارے گووندا اور شکتی کپور کے ساتھ مل کر قادر خان نے پردے پر دھمال مچا کر رکھ دیا۔

لیکن ان ڈائیلاگس اور پھوہڑ کامیدی پر تنقید بھی خوب ہوئی۔ تب تک قادر خان نے بہترین ڈائیلاگ رائٹر، بہترین کامیڈی اور بہترین معاون اداکاری کے لئے کئی مرتبہ فلم فیئر اوارڈ حاصل کر چکے تھے۔ ایک دن سورج کو غروب ہونا ہی ہوتا ہے، ایسا قادر خان کے ساتھ بھی ہوا۔ طویل مدت سے بیمار چل رہے قادر خان اس مرتبہ اسپتال گئے تو پھر واپس نہیں لوٹ سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Jan 2019, 9:10 PM