لاجواب معاون اداکار اے کے ہنگل، ’شعلے‘ سے ’لگان‘ تک یادگار اداکاری
اے کے ہنگل مجاہد آزادی اور 200 سے زائد فلموں کے معاون اداکار تھے، جو ضعیفی اور غربت کے باوجود آخری وقت تک اداکاری کرتے رہے۔ ’شعلے‘ سے ’لگان‘ تک ان کا فن آج بھی یادگار ہے

اے کے ہنگل، جن کا پورا نام اوتار کشن ہنگل تھا، ہندوستانی سینما کی تاریخ میں ایک ایسے فنکار کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی شاندار اداکاری سے دل جیتے بلکہ اپنی سادگی، خودداری اور جدوجہد سے بھی مثال قائم کی۔ وہ یکم فروری 1914 کو سیالکوٹ (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی زندگی پشاور میں گزری اور پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ تاہم فنِ اداکاری سے لگاؤ نے انہیں تھیٹر کی دنیا میں پہنچا دیا۔
ہنگل صرف فنکار ہی نہیں بلکہ ایک مجاہد آزادی بھی تھے۔ 1929 سے 1947 تک وہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں سرگرم رہے اور انہیں اس جدوجہد کے دوران تین برس قید بھی کاٹنی پڑی۔ پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد 1949 میں وہ ممبئی آ گئے۔ یہاں آ کر بھی انہوں نے اداکاری کا شوق ترک نہ کیا اور انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن سے وابستہ ہو گئے، جہاں اس دور کے بڑے فنکار جیسے بلراج ساہنی، کیفی اعظمی اور اتپل دت ان کے ساتھی تھے۔
ہنگل نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کافی دیر سے کیا۔ 52 سال کی عمر میں 1966 کی فلم ’تیسری قسم‘ سے ان کی فلمی دنیا میں انٹری ہوئی۔ اس وقت ان کے لیے ہیرو یا مرکزی کردار کے مواقع نہیں تھے، اس لیے انہیں زیادہ تر باپ، دادا یا بزرگ رشتہ داروں کے کردار ملے لیکن انہوں نے ان کرداروں میں ایسی جان ڈالی کہ وہ ہر فلم میں نمایاں ہو گئے۔ ستر اور اسی کی دہائی کی بے شمار فلموں میں وہ بطور معاون اداکار یادگار کردار کرتے نظر آئے۔
ان کی یادگار فلموں میں ’شعلے‘، ’نمک حرام‘، ’باورچی‘، ’آندھی‘، ’اوتار‘، ’ارجن‘، ’کورا کاغذ‘، ’انامیکا‘، ’پریچے‘ اور ’گڈی‘ شامل ہیں۔ خاص طور پر 1975 کی سپر ہٹ فلم ’شعلے‘ میں ان کے کردار رحیم چاچا اور ان کا ڈائیلاگ ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی‘ آج بھی شائقین کو یاد ہے۔
اے کے ہنگل نے ہندوستان کے پہلے سپر اسٹار راجیش کھنہ کے ساتھ سب سے زیادہ فلمیں کیں۔ دونوں نے تقریباً 16 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا جن میں ’آپ کی قسم‘، ’قدرت‘، ’امردیپ‘ اور ’سوتیلا بھائی‘ شامل ہیں۔ عامر خان کے ساتھ فلم ’لگان‘ میں شمبھو کاکا اور شاہ رخ خان کے ساتھ ’پہیلی‘ میں ان کی اداکاری کو بھی خوب سراہا گیا۔
ہنگل کی زندگی کا ایک تلخ پہلو یہ بھی تھا کہ آخری عمر میں وہ غربت اور بیماری کا شکار ہو گئے۔ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود انہوں نے آخری سانس تک کام جاری رکھا۔ 2011 میں ان کی تنگدستی کی خبر منظر عام پر آئی۔ وہ اور ان کا اکلوتا بیٹا دونوں علاج کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ زندگی بھر کسی سے مدد نہیں مانگی۔ جب ان کی حالت سب کے سامنے آئی تو جیہ بچن نے سب سے پہلے ان کے علاج کی ذمہ داری لی، بعد میں عامر خان، سلمان خان، پرینکا چوپڑا اور دیگر فنکار بھی مدد کے لیے آگے آئے۔
مہاراشٹر حکومت اور فلمی انجمنوں نے بھی مالی مدد فراہم کی۔ وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود انہوں نے ایک معروف فیشن ڈیزائنر کے شو میں ریمپ واک کیا اور بڑھاپے میں بھی اپنے حوصلے کا مظاہرہ کیا۔
اے کے ہنگل کے فن کو صرف ناظرین ہی نہیں بلکہ حکومت ہند نے بھی سراہا۔ 2006 میں اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے انہیں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا۔ ان کی زندگی پر ’لائف اینڈ ٹائمز آف اے کے ہنگل‘ نامی کتاب بھی شائع ہوئی، جس میں ان کے جدوجہد بھرے سفر کے مختلف پہلو بیان کیے گئے ہیں۔
صحت کی خرابی کے باعث وہ کئی برس اسپتالوں کے چکر لگاتے رہے۔ 13 اگست 2012 کو وہ باتھ روم میں گر گئے اور ٹانگ فریکچر ہو گئی۔ علاج کے دوران ان کی حالت بگڑ گئی اور 26 اگست 2012 کو ممبئی کے اسپتال میں 98 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی آخری فلم ’کرشنا اور کنس‘ تھی جس میں انہوں نے وائس اوور کیا۔ ان کی آخری ٹی وی شرکت ’مادھوبالا: ایک عشق ایک جنون‘ میں ایک کیمیو کے طور پر تھی، جو ہندوستانی سنیما کے سو سال مکمل ہونے پر پیش کی گئی تھی۔
اے کے ہنگل نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اداکاری سے رشتہ قائم رکھا۔ ان کی سادگی، خودداری اور فن کے تئیں لگن نے انہیں ان لاکھوں فنکاروں میں ممتاز بنا دیا جو پردے پر تو چمکتے ہیں مگر پردے کے پیچھے خاموشی سے جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ آج بھی فلمی دنیا کے لیے ایک مثال ہیں کہ فن سے عشق اور خودداری انسان کو امر کر دیتی ہے۔
(مآخذ: یو این آئی)