مینا کماری کی زندگی، اداکاری اور شاعری کا عکس...یومِ پیدائش کے موقع پر

مینا کماری کی زندگی تنہائی، کرب اور جذباتی الجھنوں سے لبریز تھی۔ ان کی اداکاری اور شاعری ان کے اندرونی درد کا عکس بن گئیں، جس نے انہیں صرف اداکارہ نہیں بلکہ ’ملکہ جذبات‘ بنا دیا

<div class="paragraphs"><p>مینا کماری</p></div>

مینا کماری

user

قومی آواز بیورو

ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں بہت سی اداکارائیں آئیں اور گئیں لیکن کچھ نام اپنے فن، شخصیت اور اندرونی گہرائی کی بدولت دلوں پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے۔ انہی میں ایک نام ہے مینا کماری کا، جنہیں بجا طور پر ’ملکہ جذبات‘ کہا گیا۔ لیکن ان کی جذباتی اداکاری محض ایک فنکارانہ صلاحیت نہیں تھی، بلکہ ان کے اندرونی کرب، تنہائی اور خاموش اذیت کا وہ عکس تھی جسے وہ کبھی لفظوں میں نہیں کہہ سکیں، سو پردۂ سیمیں پر ادا کر گئیں۔

مینا کماری کا اصل نام ماہ جبیں تھا، جو یکم اگست 1932 کو ممبئی کے ایک متوسط مسلم گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے فوراً بعد والد کا یتیم خانے چھوڑ آنا اور پھر ماں کی منتوں پر واپسی، یہ واقعہ ہی شاید ان کی پوری زندگی کا ایک استعارہ بن گیا - قبولیت کی جدوجہد۔ ان کا بچپن بھی فلمی دنیا میں بطور چائلڈ آرٹسٹ گزر گیا، جس نے انہیں معصومیت کی عمر میں ہی بالغ فکر اور تنہائی کا ذائقہ چکھا دیا۔

ان کی زندگی کا ایک اور کڑا موڑ کمال امروہی کے ساتھ شادی تھی۔ ایک طرف ایک عظیم فلم ساز، دوسری طرف ایک حساس فنکارہ- لیکن یہ رشتہ نہ سمجھ باندھ پایا، نہ جذبات کا سہارا دے سکا۔ ان کی ازدواجی زندگی میں دراڑ پڑ گئی اور وہ علیحدہ ہو گئے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ علیحدگی کے باوجود انہوں نے فلم پاکیزہ کی شوٹنگ مکمل کی، کیونکہ ان کے الفاظ میں ’ایسی فلمیں بار بار نہیں ملتیں۔‘


یہی قربانی، یہی شدت، یہی اخلاص ان کی فنکارانہ عظمت کا اصل مظہر ہے۔ فلم ’صاحب بیوی اور غلام‘ میں جب وہ ایک تنہا اور نظرانداز کی جانے والی بیوی کا کردار ادا کرتی ہیں، تو ناظر صرف اداکاری نہیں دیکھتا، بلکہ ایک عورت کی چیخ سنتا ہے جو شاید مینا کی اپنی روح کی آواز ہے۔ ان کی فلموں ’میں چپ رہوں گی‘، ’آرتی‘، ’پرینیتا‘، ’کاجل‘ وغیرہ میں بھی یہی درد نمایاں ہے۔

تاہم، مینا کماری کا اصل فن شاید ان کے قلم سے پھوٹتا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے سب سے ذاتی جذبات شاعری کے ذریعے بیان کیے۔ انہوں نے ناز تخلص اختیار کیا اور اپنی وصیت میں شاعر گلزار کو اپنی نظموں کی اشاعت کی ذمہ داری سونپی۔ ان کی شاعری ایک خاموش احتجاج، ایک بے زبان سچائی اور ایک بے آواز فریاد تھی۔

ان کی مشہور غزل ’چاند تنہا ہے، آسماں تنہا...‘ ان کے وجود کا عکاس ہے، ایسا وجود جو روشنی چاہتا تھا لیکن دھند میں گم ہو گیا۔ مینا کماری نے خود کہا تھا کہ اداکاری میں خیال، کردار اور ہدایت کسی اور کے ہوتے ہیں لیکن شاعری صرف اور صرف ان کی اپنی ہوتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو انہیں دیگر اداکاراؤں سے منفرد بناتا ہے۔ انہوں نے صرف کردار نہیں جئے، انہوں نے اپنی ذات کے زخم فن کے قالب میں ڈھال دیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی آنکھوں میں ناظر کو ہمیشہ ایک ان کہی کہانی نظر آتی تھی۔


مینا کماری نے 31 مارچ 1972 کو جب ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کیں، تو وہ صرف ایک اداکارہ نہیں، ایک عہد کا خاتمہ تھا لیکن ان کی تنہائی آج بھی ان کی فلموں، شاعری اور تاثر میں زندہ ہے۔

مینا کماری وہ فنکارہ تھیں جنہوں نے دکھ کو جمالیات میں ڈھالا، تنہائی کو وقار بخشا اور عورت کے اندرونی کرب کو ایسا چہرہ دیا جو آج بھی پردۂ سیمیں پر بولتا ہے، رلاتا ہے اور خاموشی سے دلوں میں اتر جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔