خلافت ابو بکر البغدادی کا عروج و زوال

Getty Images
Getty Images
user

قومی آواز تجزیہ

پہلے موصل گیا اور اس ہفتےرقّہ بھی ہاتھ سے نکل گیا ۔اس طرح ابو بکر البغدادی کی خود ساختہ ’خلافت‘ کا کم وبیش خاتمہ ہو گیا۔ گو ابھی بھی شام میں کچھ حصّے ایسے ہیں ، جہاں پر ابو بکر کے حامیوں کا قبضہ ہے۔ لیکن خلافت ابو بکر البغدادی کی نہ صرف کمر ٹوٹ چکی ہے بلکہ یہ خلافت آخری سانس لے رہی ہے۔

جہاد کے نام پر دہشت کی خلافت قائم کرنے والا ابو بکر البغدادی زندہ ہے یا خود بھی لقمہ اجل ہو گیا اس بات کا بھی پتہ نہیں ہے۔ لیکن جون 2014 کی جھلستی گر میوں میں موصل کی تاریخی النوری مسجد سے ’اسلامی خلافت ‘ کا اعلان کرنے والے ابو بکر البغدادی نے تقریباً دو برس تک دنیا کو دہلا ئے رکھا۔

البغدادی خود موصل کاایک شہری تھا ۔بغداد یو نیورسٹی سے اسلامیات میں ڈگر ی حاصل کر نے کے بعد بغداد کی ہی ایک مسجد میں دینی فرائض انجام دیتا تھا ۔ لیکن سن 2003میں عراق پر امریکی حملے نے عراق کی دنیا ہی بدل دی ۔ امریکی فوج نے نہ صرف چند برسوں کے درمیان عراق کو روند ڈالا بلکہ امریکی فوج کے ہاتھوں لاکھوں عراقی مارے گئے اور ان کے مظالم کا شکار ہوئے ۔ البغدادی بھی اسی دوران امریکی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوااور اس کو فلوجہ جیسے رسوائے زمانہ جیل میں ڈال دیا گیا۔

بس اس واقعہ نے ابو بکر البغدادی کی زندگی ہی بدل دی۔ عراق پر ظالمانہ امریکی قبضے اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے نےعراق کے ایک بڑے طبقے میں امریکہ اور مغرب کے خلاف نفرت کی چنگاری روشن کر دی ۔ البغدادی بھی اسی نفرت کا شکار ہوا اور اس کے دل میں مغرب سے بدلے کی آگ روشن ہو گئی ۔ جیل ہی میں اس کی ملاقات القاعدہ کے کچھ افراد سے ہو گئی تھی۔

جیل سے رہائی کے بعد البغدادی با قائدہ القاعدہ میں شامل ہو گیا جس کا سر براہ اس وقت ایک اردنی تھا جو کچھ عر صے بعد ایک امریکی ہوائی حملے میں ماراگیا۔ اس کی موت کےبعد عراقی القاعدہ کی کمان ابو بکر البغدادی کے ہاتھوں میں آگئی اور البغدادی نے جلد ہی کچھ عراقی حصّوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔

سن 2010 اور سن 2011 میں عرب دنیا میں Arab Spring پھوٹ پڑی جو ساری عرب دنیا میں آمرانہ نظام کی مخالفت کی ایک لہر تھی ۔ اس کا اثر شام میں بشار الاسد کے خلاف بھی ہوا۔ بشارالاسد حکومت امریکہ ، سعودی اور اسرائیل مخالف حکومت تھی جس کے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے ۔ بشارالاسد کے خلاف جب شامی نوجوان سڑکوں پر نکل پڑےتو شامی حکومت مخالف قوتوں نے اس کو ایک بہتر موقع جان کر باغیوں بلکہ جہادیوں کی بھی مدد کر نی شروع کر دی۔

اس موقع کو غنیمت جان کر ابو بکر البغدادی نے اپنی پوری قوت شام میں جھونک دی اور امریکی ذرائع کے مطابق ان کے اس مشن میں سعودی افراد نے البغدادی کی مدد کی ۔ ظاہر ہے کہ امریکہ اس وقت روس اور ایران حامی الاسد کی حکومت کا تختہ پلٹنے میں دلچسپی رکھتا تھا اس لئے امریکہ نے بھی اس وقت البغدادی کے جہاد کو خاموشی سے تسلیم کر لیا۔

اس طرح البغدادی پہلے شام پر چھا گیا جہاں اس نے شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر رقہ پر قبضہ جما لیا جو شام میں ابو بکر کی خلافت کا مر کز بن گیا۔ لیکن البغدادی جلد ہی ایک زبر دست فو جی کمانڈر ثابت ہوا ۔ اس نے اب اپنا رخ واپس عراق کی جانب موڑ دیا جہاں سے امریکی فو جیں واپس جا چکی تھیں اور عراقی حکومت ڈاواں ڈول تھی۔

جلد ہی البغدادی کی فوج نے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر قبضہ جما لیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے عراق کا کثیر سنی علاقے والا سب سے بڑا شہر موصل ان کے قبضے میں آگیا۔ موصل پر قبضہ ہو تے ہی البغدادی نے جون 2014 میں النوری مسجد سے اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا۔

منہدم النوری مسجد - Getty Images
منہدم النوری مسجد - Getty Images

ابو بکر البغدادی کی ’خلافت ‘ سن 1924 کی دہائی میں ترکی خلافت کے زوال کے بعد پہلی خود ساختہ ’خلافت ‘ تھی جس نے مغرب کے خلاف ’ جہاد ‘کا نعرہ بلند کیا تھا۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کے بعد مسلم نوجوان کے دلوں میں مغرب کے خلاف نفرت کی لہر اور بدلے کا جذبہ جوش مار رہا تھا ۔ مغرب میں بم دھماکوں اور لوگوں کا گلا کاٹنے جیسے وحشیانہ اعمال کر کے البغدادی نے دنیا بھر سے مغرب مخالف نوجوانوں کو شام اور عراق میں اکٹھا کر لیا۔

دیکھتے دیکھتے البغدادی کی خلافت محض عراقی اور شامی حکومت مخالف ہی نہیں بلکہ مغرب کے مختلف شہروں پر دہشت گردحملوں کے بعد مغرب کے لئے بھی ایک خطرہ بن گئی ۔ اس وقت امریکی صدر اوباما نے یہ طے کیا کہ ابو بکر البغدادی کی خلافت کا خاتمہ ضروری ہے۔ بس اسی کے بعد یعنی سن 2016 میں امریکہ کی حکمت عملی البغدادی کے تئیں بدل گئی اور وہیں سے البغدادی کی خلافت کا زوال شروع ہو گیا۔

اوباما نے سعودی عرب پر دباؤ ڈالا ۔ سعودیوں نے البغدادی سے منھ موڑ لیا ۔ اب شام ، روس ،عراق اور حد تو یہ ہے کہ موقع پڑنے پر ایران تک سے امریکہ نے البغدادی کے خلاف ہاتھ ملالیا ۔ دیکھتے دیکھتے عراق سے البغدادی کے قدم اکھڑنے لگے اور آخر چند ماہ قبل موصل البغدادی کے ہاتھوں سے نکل گیا۔

بس پھر کیا تھا ۔ البغدادی مخالف تمام قوتوں نے اس کے حامیوں کو شام میں گھیر لیا اور نتیجتاً شام میں البغدادی کی آخری پناہ گاہ رقہ بھی اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔اس طرح البغدادی کے مغرب مخالف جہاد اور اسلامی خلافت نے دم توڑ دیا۔

اب دنیا بھر میں پھیلے جہادیوں کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ نفرت پر مبنی نام نہاد ’جہاد ‘ محض دہشت گرد ی ہے جو اسامہ بن لا دن سے لے کر ابو بکر البغدادی تک ناکام رہی۔ مغرب کے خلاف کو ئی بھی جدو جہد جہاد کے نام پر نہیں بلکہ جدید سیاسی پیرایوں سے لڑی جا سکتی ہے جیسے کہ 20ویں صدی میں دنیا نے مغرب سے جنگ آزادی لڑی تھی۔ لیکن ایسی جد وجہد اسامہ بن لا دن اور ابو بکر البغدادی جیسے دقیا نوسی افراد کی قیادت میں نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے جدید لیڈر کی ضرورت ہو گی جو عالم اسلام میں فی الحال کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔