حماس کا چھ قیدیوں کی رہائی پر اصرار، اسرائیل کا انکار برقرار
اسرائیل کے انکار نے اس معاملہ کو مزید الجھا دیا ہے اور اب یہ معاملہ اسرائیل کے اندر شدید بحث و تکرار کا باعث بن گیا ہے۔

مصر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں، تاہم کئی پیچیدہ معاملات ایسے ہیں جو ان مذاکرات کی پیش رفت کو متاثر کر رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک اہم اور متنازعہ معاملہ قیدیوں کا مسئلہ ہے، جو ہر فلسطینی اور اسرائیلی مذاکرات میں بحث کا مرکز بنتا ہے اور اسرائیل کے اندر شدید داخلی اختلاف کو جنم دیتا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امن منصوبے کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ 250 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، اس کے بدلے میں غزہ میں موجود 47 اسرائیلی قیدیوں کو، جن میں 25 اسرائیلیوں کی لاشیں بھی شامل ہیں، واپس کیا جائے گا۔
دوسری جانب، حماس اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ ان قیدیوں کو رہا کیا جائے جو طویل عرصے سے قید میں ہیں اور جن کا تعلق تحریک کی اہم شخصیات سے ہے۔ ان قیدیوں کی فہرست میں سرفہرست نام فتح کے رہنما مروان البرغوثی کا ہے، جبکہ حماس کی جانب سے مانگے گئے دیگر نمایاں رہنماؤں میں عبداللہ البرغوثی، ابراہیم حامد، حسن سلامہ، عباس السید اور عوامی محاذ کے سیکرٹری جنرل احمد سعدات شامل ہیں۔
مروان ،ان میں سے ایک ہیں جن کو اسرائیل کی تاریخ کی سب سے طویل قید کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ دوسرے کو اسرائیل کے نزدیک سب سے خطرناک قیدی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جو ہر بار قیدیوں کا معاملہ زیرِ بحث آنے پر دوبارہ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ وہ 1987 کی پہلی انتفاضہ کے دوران نمایاں ہوئے اور 1996 میں فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔
انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز پندرہ سال کی عمر میں فتح تحریک کے تحت کیا، جس کی قیادت مرحوم فلسطینی رہنما یاسر عرفات کر رہے تھے۔ مروان البرغوثی نے اپنے سیاسی سفر کے دوران فلسطینی مقصد اور دو ریاستی حل کے لیے بھرپور حمایت حاصل کی۔
انہیں 2002 میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے شہروں پر فوجی یلغار کے دوران گرفتار کیا، جو اسرائیلی کارروائی “آپریشن ڈیفنس شیلڈ” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ البرغوثی کو پانچ بار عمر قید اور 40 سال اضافی قید کی سزا سنائی گئی، اُن پر کئی حملوں کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنہیں وہ "دہشت گردی کی علامتیں" قرار دیتے ہیں ،ان میں مروان البرغوثی سرفہرست ہیں ،انہیں کسی بھی مرحلے پر معاہدے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔عبداللہ البرغوثی کو حماس کے انجینئر کے لقب سے جانا جاتا ہے، وہ بارودی مواد کے ماہر ہیں۔ اسرائیل ان پر درجنوں حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرتا ہے۔
انہیں 67 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی، جو کسی بھی فلسطینی قیدی کے لیے سب سے طویل سزا ہے، بلکہ انہیں دنیا کے طویل ترین سزا پانے والے قیدی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ وہ حماس کے سینئر رہنما انجینئر اور دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کے ماہر ہیں، اور ان کی عمر تقریباً 53 سال ہے۔
دوسری جانب اسرائیل ابراہیم حامد کو اپنے سب سے خطرناک قیدی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے دوسری انتفاضہ کے دوران حماس کے عسکری ونگ کی قیادت کی اور 2002 میں متعدد حملے کیے۔اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسے اس وقت اسرائیل کا سب سے خطرناک قیدی قرار دیا جاتا ہے، اور وہ عبداللہ البرغوثی کے بعد دوسرا سب سے طویل قید کی سزا پانے والا قیدی ہے۔
ابراہیم حامد مغربی کنارے کے تمام علاقوں میں حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ تھے۔ ان پر متعدد حملوں کی ذمہ داری کا الزام ہے اور انہیں 46 اسرائیلیوں کے قتل کا قصور وار ٹھہرایا گیا۔انہیں 54 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
ابراہیم حامد کی پیدائش 1965 میں سلواد مشرقی رام اللہ میں ہوا۔انہوں نے اپنی ابتدائی، میڑک اور انٹر تک تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کی۔ وہ چھوٹی عمر سے اسرائیل کے خلاف سرگرمیوں میں شامل رہے اور کئی بار گرفتار ہوئے، قبل اس کے کہ انہیں آخری بار 2006 میں گرفتار کیا گیا۔
فلسطینیوں اسیران کی انجمن کے مطابق اپنی قید کے دوران احمد سعدات کئی سالوں تک ملنے جلنے کی اجازت سے محروم رہے اور انہیں الگ تھلگ قید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ قید تنہائی کے تجربے کے بعد، انہوں نے "صدا القید" کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی، جس میں اسرائیلی جیلوں میں قید تنہائی کی پالیسی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اسیر سعدات کے چار بچے اور چار پوتے پوتیاں ہیں۔ سعدات کا جنم 1953 میں رام اللہ کے قصبے البیرہ میں ہوا۔ انہیں اسرائیل نے 1976 سے 1993 کے درمیان چھ مرتبہ گرفتار کیا۔
فہرست میں دیگر نام بھی شامل ہیں جیسے عباس السید، جس پر 2002 میں نتانیا کے پارک ہوٹل پر حملے کا الزام ہے، اور حسن سلامہ، جو کتائب القسام کے نمایاں رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور انہیں 46 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔