سعودی عرب: تاریخ کے ایک نازک موڑ پر

Getty Images
Getty Images
user

قومی آوازبیورو

ابھی پچھلے ہفتے سعودی عرب سے آنے والی ایک خبر نے سعودی معاشرہ میں دلچسپی رکھنے والوں کو چونکا دیا۔ خبر یہ تھی کہ اب سعودی عرب میں عورتیں و لڑکیاں اسٹیڈیم میں جا سکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس خبر نے لوگوں کو چونکا دیا کیونکہ سعودی عرب میں ایک ایسا اسلامی شرعی نظام اور معاشرہ ہے جہاں عورت نہ تو بغیر حجاب اور نہ ہی بغیر کسی محرم کے گھر سے باہر پاؤں نکال سکتی ہے۔ گو پچھلے چند برسوں میں سعودی عورتیں یہ مانگ کر رہی ہیں کہ ان کو خود ڈرائیونگ کی اجازت ملنی چاہیے جو ابھی تک ان کو نہیں ملی ہے۔

ایسے ماحول میں سعودی خواتین کی اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت ایک بڑا فیصلہ تھا جس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کر دیا کہ کیا سعودی معاشرہ ایک کٹر شرعی دنیا سے باہر جدیدیت کی طرف جھانک رہا ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو آج یعنی 25 ستمبر کی تاریخ میں (جب کہ سعودی عرب اپنے قیام کی 85ویں سالگرہ منا رہا ہے) سب سے اہم سوال بن گیا ہے اور اس ہی سوال کے جواب میں سعودی سیاست اور سعودی معاشرے کے بہت سارے راز پنہا ہیں۔

سعودی عرب جس کا قیام آج سے 85 برس قبل سنہ 23 ستمبر 1932 میں بادشاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں ہوا تھا، سعودی عرب نہ صرف ایک اسلامی ملک ہے بلکہ وہاں آج بھی کٹر شرعی نظام قائم ہے۔ سعودی عرب غالباً آج بھی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عورتیں بغیر حجاب اور بغیر محرم گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ہیں۔ یہاں نہ صرف مطلق العنان السعود خاندان حاکم ہے بلکہ سعودی عرب الوہاب کے اسلامی عقائد پر مبنی ہے۔ یہاں سعودی شاہی خاندان اور وہاں کے علماء کے درمیان ایک معاہدہ سا ہے جس میں ملک کا سیاسی نظام شاہی خاندان کے تحت ہے اور سعودی معاشرہ پر علماء دین کی کٹر گرفت ہے۔ کیونکہ ملک کا قانون ہی وہابی شریعت پر مبنی ہے۔ یعنی سعودی نظام شاہی السعود خاندان اور وہاں کے علماء کے درمیان شریعت پر مبنی ہے۔

لیکن اس اکیسویں صدی میں پوری دنیا بشمول سعودی عرب بدل چکی ہے۔ آج ہر سعودی باشندے یعنی بوڑھا، جوان، بچہ خواہ عورت ہو یا مرد ہر کسی کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ پھر تیل کی دولت کی ریل پیل نے ہر سعودی باشندے کو ایک نہیں درجنوں بار دنیا گھومنے کا موقع عطا کیا ہے۔ یعنی ہر سعودی عورت اور مرد اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ اس انفارمیشن ایج میں سعودی عرب کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ سعودی سماج کو کس طرح اٹھارہویں صدی کے قبائلی قدروں پر روکے رکھ سکتا ہے۔ آج کی سعودی عورت اب نہ صرف پڑھ رہی اور امریکہ لندن کی سیر کر رہی ہے بلکہ وہ نوکریاں بھی کر رہی ہے۔ اس سعودی عورت کو کیسے مکان کی چہار دیواری میں بند رکھا جا سکتا ہے؟ سعودی معاشرہ اپنے قیام کے دن سے اس اہم چیلنج سے جوجھ رہا ہے اور اب یہ ظاہر ہے کہ سعودی عورت شریعت کے نام پر لگی اپنی پاؤں کی بیڑی کو توڑنے کو تیار ہے۔ تب ہی تو سعودی نظام سعودی عورت کو کبھی بلدیاتی انتخابات میں شرکت اور کبھی اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت دے کر بہلا پھسلا رہا ہے۔ لیکن اب یہ طے ہے کہ سعودی عورت بہت عرصے تک چھوٹی چھوٹی سہولتوں سے خاموش بیٹھنے والی نہیں ہے۔ ان حالات میں سعودی نظام کے علماء دین کیا کریں گے اور سعودی پاور آف بیلنس کس طرح برقرار رہے گا ان سوالوں کا جواب اب شاہ سلمان بن السعود اور شہزادہ محمد بن سلمان کو تلاش کرنا ہے۔

السعود شاہی خاندان کے سامنے محض ایک سوال نہیں بلکہ کئی پیچیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جن کا کوئی سیدھا اور سادا جواب نہیں ہے۔ مثلاً، کیا شاہ سلمان کی موت کے بعد السعود شاہی خاندان متحد رہے گا یا نہیں؟ یا پھر کیا عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب پر سعودی عرب کی ہی فوقیت برقرار رہے گی جو اب تک اس کو حاصل ہے؟ پھر کیا دنیا میں گھٹتی تیل کی قیمتوں اور دیگر نئے تیل پیداوار کےو سائل میں سعودی معیشت ویسے ہی برقرار رہ سکے گی جیسی اب تک رہی؟

سیاسی سطح پر اب یہ واضح ہے کہ سعودی شاہی خاندان میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ یہ بات اس وقت افشا ہو گئی جب کنگ سلمان نے ایک ہنگامی اجلاس بلا کر اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا نائب مقرر کر دیا۔ جب کہ شاہ سلمان کی تاجپوشی کے وقت شہزادہ نائیف کو نائب مقرر کیا گیا تھا۔ مغربی ذرائع کے مطابق نائیف کو ہٹانے کے فیصلے نے سعودی خاندان میں شگاف پیدا کر دی۔ خبریں یہاں تک ہیں کہ شہزادہ نائیف کو جدہ کے ایک محل میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان کے ہاتھوں میں اب اس قدر اقتدار آ چکا ہے کہ قیدی پرنس نائیف سلمان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد ایک بات طے ہو چکی ہے کہ السعود خاندان میں شگاف پیدا ہو چکا ہے۔ آگے یہ شگاف کیا سیاسی گل کھلائے گا یہ ابھی کہنا مشکل ہے۔

اسی طرح سنہ 1970 میں تیل کی دولت کی برسات کے بعد سے ابھی حال تک سعودی عرب کو عالم اسلام اور عالم عرب میں باقی تمام مسلم ممالک پر جو فوقیت حاصل تھی اس میں بھی فرق پڑ چکا ہے۔ ایران اب عالم اسلام میں تیزی سے ایک دوسرا پاور سنٹر بن کر ابھر رہا ہے۔ عراق، شام اور لبنان کے علاوہ یمن، بحرین اور قطر جیسے عرب ممالک میں بھی اپنی پکڑ بنا رہا ہے۔ ابھی حال میں قطر اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی رشتے ٹوٹنے کے بعد قطر وہ پہلا وہابی عرب ملک ہے جس نے ایران کی حکومت کو نہ صرف تسلیم کر لیا ہے بلکہ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں۔ اس بات سے عالم عرب میں سعودی مونوپولی کو ایک بڑا دھچکا ہے۔

اسی طرح ایران تمام عرب ممالک اور دیگر اسلامی ممالک میں شیعہ کارڈ کا استعمال کر کے تیزی سے عالم اسلام میں اپنے پاؤں پھیلا رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ اب ایران، افغانستان اور پاکستان کی سیاسی بساط کا ایک اہم کھلاڑی بن چکاہے جو عالم اسلام میں سعودی افضلیت کے لیے ایک خطرہ ہے۔

عالمی بازار میں گرتی تیل کی قیمتوں اور دیگر تیل کی پیداوار کے ذرائع نے سعودی معیشت پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ خبروں کے مطابق سعودی نظام نوجوان میں بے روزگاری کے ذرائع پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ پھر عالمی بازار میں تیل کی قیمت تیزی سے گر رہی ہےیہی سبب ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان تیزی سے عوام کو ملنے والی معاشی سہولیات کوکم کر رہے ہیں اور تیل سے لے کر صحت تک کے میدان میں سرمایہ داری کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی بیرونی ممالک سے آکر کام کرنے والوں کی تعداد تیزی سے کم کرکے سعودی نوجوانوں کو روزگار سے لگانے کی مہم جاری ہے۔ لیکن تیل کی قیمت کے کم ہونے سے جو معاشی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کا کوئی واضح حل سعودی حکومت کے پاس نہیں ہے۔

الغرض اپنے قیام کے 85 سال پر سعودی عرب اپنی تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کے سامنے سوالات اور مسائل بہت ہیں اور ان کے حل کم ہیں۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر سعودی عرب اٹھارہویں صدی سے اکیسویں صدی میں کیسے چھلانگ لگا پاتا ہے دنیا کی نگاہیں اور بالخصوص عالم اسلام کی نگاہیں اس بات پر لگی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے نائب اور بیٹے محمد بن سلمان ان مسائل کا حل کیسے تلاش کرتے ہیں!

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔