سعودی عرب: اوپر امریکہ، نیچے شہزادہ سلمان

شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ فیصلوں کے بعد سعودی عرب عدم استحکام کی جانب گامزن ہو سکتا ہے

شہزادہ محمد بن سلمان 
شہزادہ محمد بن سلمان
user

قومی آواز تجزیہ

اوپر اللہ، نیچے امریکہ! کبھی پاکستان کے بارے میں سیاسی حلقوں میں یہ جملہ مذاقاً استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اب سعودی عرب کے بارے میں بھی بات کچھ ذرا تبدیلی کے ساتھ یوں کہی جا سکتی ہے کہ اوپر امریکہ، نیچے شہزادہ محمد بن سلمان۔ پچھلے چند ہفتوں کے اندر جس طرح شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے پورے نظام کو کچل کر آل سعود خاندان کی حکومت پوری طرح اپنے قبضے میں لے لی ہے اس سے یہ ظاہر ہے کہ سعودی عرب میں اقتدار کا محض ایک ہی مرکز ہے اور وہ ہے محمد بن سلمان۔ خود 81 برس کے بادشاہ سلمان اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی نظر آتے ہیں اور سعودی عرب میں فی الحال جو ہو رہا ہے وہ سب امریکہ کی مرضی سے ہی ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سعودی عرب میں اب ’اوپر امریکہ اور نیچے محمد بن سلمان‘ ہی ہیں۔ باقی سب محض ایک صفر۔

سب سے پہلے بادشاہ سلمان نے چند ہفتوں قبل اپنے بھتیجے اور سعودی عرب کے انتہائی طاقتور وزیر انٹرنل سیکورٹی شہزادہ نائف کو ان کے عہدے سے برطرف کر اپنے بیٹے کو ملک کی انٹرنل سیکورٹی سونپ دی۔ شہزادہ نائف کے بارے میں خبریں ہیں کہ وہ اب نظر بند ہیں۔ شہزادہ نائف ایک عرصے سے نہ صرف انٹرنل سیکورٹی کے سربراہ تھے بلکہ ان کے سعودی قبائل کے ساتھ بھی بہترین مراسم تھے۔ محمد بن سلمان پہلے ہی بطور وزیر دفاع ملک کی فوج کے سربراہ بن چکے تھے۔ شہزادہ نائف کے بعد سعودی عرب کے اندرونی سیکورٹی کے معاملات بھی اب انہی کے زیر نگوں ہو گئے ہیں ۔

آل سعود کا یہ طرز حکومت رہا ہے کہ بادشاہ بغیر شرکت تمام تر اقتدار کا مالک ہوتا ہے۔ لیکن وہ ملک کا اقتدار آل سعود یعنی مختلف شہزادوں اور ملک کی شرعی نظام کے سلفی علماء کی مرضی اور اشتراک کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ لیکن محمد بن سلمان یہ نظام تیزی سے بدل رہے ہیں۔ فوج ان کے قبضے میں تھی ہی، نائف کے بعد انٹرنل سیکورٹی یعنی ملک میں کون آزاد ہوگا اور کون قید رہے گا، اس کا فیصلہ بھی وہی کریں گے۔

سعودی عرب میں سیکورٹی نظام ہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ کسی ایک شخص کے ہاتھوں میں قید ہو کر نہ رہ جائے اس کے لیے آل سعود نے ان کو تین حصوں میں بانٹ دیا تھا۔ فوج، داخلی سیکورٹی اور نیشنل گارڈ یعنی پولس جیسی فورس۔ نیشنل گارڈ کا نظام ابھی تک مرحوم شاہ عبداللہ کے بیٹے شہزادہ متعب کے ہاتھوں میں تھا۔ لیکن اتوار کی رات یکایک شہزادہ محمد نے جن گیارہ شہزادوں کو گرفتار کیا ان میں وہ بھی شامل تھے۔ یعنی سعودی نیشنل گارڈ بھی شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم کا محتاج ہے۔

اس طرح شہزادہ سلمان نے آل سعود کی تمام تر طاقت اپنے ہاتھوں میں جمع کر خود کو مطلق العنان شاہ کا رنگ دے دیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، شہزادہ محمد سلمان کا عتاب سعودی مذہبی نظام پر بھی جاری ہے۔ خبروں کے مطابق سعودی علماء کا وہ گروہ جو ان کی عورتوں کے تئیں پالیسی اور ان کے سعودی عرب کے لیے لبرل اسلام کی ضرورت جیسے اعلان سے ناخوش تھا وہ علماء بھی اب قید میں ہیں۔ اس کے علاوہ جدہ جیسے اہم شہر میں وہ افراد جو کچھ عرصے سے کھل کر سیاسی گفت و شنید کرنے لگ گئے تھے ان میں سے بھی چند جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

لطف کی بات تو یہ ہے کہ پرنس محمد یہ سب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مرضی سے کر رہے ہیں۔ خود مشہور انگریزی اخبار نیو یارک ٹائمس کے ہاتھوں گرفتار شہزادوں کی لسٹ میں ولید بن طلال کا نام ہے۔ ان کی ٹرمپ سے کبھی جھڑپ ہو چکی تھی۔ پھر 11 شہزادوں کی گرفتاری کے بعد خود صدر ٹرمپ نے شہزادہ محمد بن سلمان سے گفتگو کی جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ محمد کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے۔ پھر شہزادہ سلمان کے اس عمل کے چند روز قبل ٹرمپ کے داماد اور ان کے مشیر خاص سعودی عرب ہو کر لوٹے تھے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سعودی عرب میں اٹھایا جانے والا ہر قدم واشنگٹن کی ایما اور مرضی سے ہی اٹھایا جاتا ہے۔ تب ہی تو یہ کہا جا رہا ہے کہ ’اوپر امریکہ اور نیچے محمد بن سلمان‘۔

لیکن اس کے اثرات کیا ہوں گے! اس تیزی سے بدلتی 21ویں صدی میں کیا ایک مطلق العنان شہزادہ ملک کا تمام اقتدار اپنی مٹھی میں لے کر چین و سکون سے راج کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ آل سعود جو سعودی عرب میں اقتدار کا پہلا مرکز ہے اس میں پھوٹ ہی نہیں بلکہ خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔ پھر سعودی عرب کا دوسرا اقتدار کا ستون یعنی سلفی علماء وہ بھی شہزادے کے نشانے پر ہیں۔ یعنی سعودی حکومت اور سعودی شرعی نظام کے بیچ کھائی پیدا ہو گئی ہے۔ پھر سعودی سماج میں ریفارم پسند گروہ اور پرانی قدروں میں یقین رکھنے والے گروہ کے درمیان بھی رسہ کشی ہے۔

یعنی سعودی عربیہ اب ہر سطح پر بٹا ہوا ہے۔ ان حالات میں سعودی استحکام کب تک برقرار رہتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کا مطلق العنان مزاج سعودی عرب کے لیے منحوس ثابت ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Nov 2017, 8:04 AM