تیل کے چراغ سے برقی فانوس تک مسجد حرام میں ’روشنی کے سفر‘ کا احوال

کسی دور میں مسجد حرام میں نمازیوں اور زائرین کے لیے چراغوں سے روشنی کی جاتی تھی مگر آج ان چراغوں کی جگہ دیوہیکل فانوسوں نے لے لی ہے

تصویر العربیہ ڈاٹ نیٹ
تصویر العربیہ ڈاٹ نیٹ
user

قومی آوازبیورو

الریاض: مسجد حرام وقت کے ساتھ ساتھ جہاں کئی پرانی چیزیں ترک ہوئیں اور ان کی جگہ نئی مروجہ اشیا نےلی۔ دیگر تبدیلیوں کی طرح مسجد حرام میں روشنی کا سفر بھی دلچسپ ہے۔ کسی دور میں مسجد حرام میں نمازیوں اور زائرین کے لیے چراغوں سے روشنی کی جاتی تھی مگر آج ان چراغوں کی جگہ دیوہیکل فانوسوں نے لے لی ہے۔

اس سلسلے میں اسلامی آثار قدیمہ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور شاہ سعود یونیورسٹی کے کالج آف ٹورازم اینڈ آرکیالوجی فار ڈیولپمنٹ اینڈ کوالٹی کے وائس ڈین ڈاکٹر محمد السبیعی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا پہلا شخص جس نے طواف میں شرکت کرنے والوں کے لیے روشنی کا اہتمام کیا اس کا نام عقبہ بن الازرق تھا۔ان کا گھر کعبہ کی طرف سے مسجد الحرام سے منسلک تھا اور وہ اپنے گھر کے کنارے پر ایک بڑا چراغ روشن کرتے۔ رات کے وقت حجاج اور زائرین کعبہ شریف اور اور مقام ابراہیم میں روشنی ہوجاتی۔

ڈاکٹر السبیعی نے کہا کہ اس میں عقبہ کا چراغ کئی سال جلتا رہا یہاں تک کہ خالد القسری نے حجر اسود کے کونے کے سامنے ایک لمبے ستون پر زمزم کا چراغ رکھ دیا۔ سنہ 216 ہجری میں ایک اور لمبا ستون زمزم کے ستون کے سامنے مغربی کونے کےپاس رکھا گیا۔

سنہ 222 ھ میں دو لمبے کالم بنائے گئے۔ ایک یمنی کونے سے متصل اور دوسرا شامی کونے سے متصل تھا۔کعبہ کے تمام کونوں میں چار کالم رکھے گئے۔سنہ 227ھ میں لکڑی کے لمبے لمبے ستون بنائے گئے جن کی تعداد دس تک تھی اور ان کی سطح کو پیتل سے ڈھانپا گیا تھا۔ یہ لکڑی کے ستون خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنے والوں کی نماز کی جگہ کے قریب بنائے گئے تھے۔


روشنی کے ستونوں کی تجدید

ڈاکٹر السبیعی نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ صحن مطاف کے اردگرد کی روشنیوں کی کئی بار تجدید کی گئی ہے اور کعبہ کے ارد گرد سنہری لوہے کے 6 کالم ایک مربع شکل میں بنائے گئے جو رات کے وقت زائرین کے لیے روشن کیے جاتے تھے۔ ماضی میں کعبہ چاروں طرف سے کئی ستونوں سے گھرا ہوا تھا۔ہرستون کے درمیان اوپر لکڑی کا ایک غلاف سجا ہوا ہوتا۔اس میں خوبصورت نوشتہ جات اور مقدس عبارتیں تحریر کی جاتیں۔ اس غلاف سے زنجیریں اور انگوٹھی لٹکی ہوتی ہے جس پر رات کو موم بتیاں اور چراغ لٹکائے جاتے ہیں۔

انہوں نے یہ بتایا کہ چھٹی صدی ہجری میں کعبہ کے اردگرد لکڑی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جن پر لوہے کی تختیوں میں مشعلیں روشن کی جاتیں۔

30 چراغ

السبیعی نے حرم مکی میں روشنی کے راز کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ نویں صدی ہجری میں مسجد حرام میں 30 چراغ تھے اور یہ چراغ ہر سال امیرِ حج کے ساتھ لائے جانے والے تیل سے روشن کیے جاتے تھے۔

اسی طرح سنہ 1347 ہجری میں شاہ عبدالعزیز نے مسجد الحرام کی تمام بتیوں کی تجدید اور اضافے کا حکم دیا۔ان کی تعداد ایک ہزار بلب تھی، لیکن بڑی مشین اتنی تعداد میں بلب روشن کرنے کے لیے کافی نہیں تھی۔ اس لیے انھوں نے حکم دیا کہ اٹاری کا ایک گروپ بجلی پر نصب کیا جائے۔ سنہ 1349 ہجری میں آپ نے ایک طاقتور مشین خرید کر بڑی مشین میں شامل کرنے کا حکم دیا لیکن سنہ 1353ھ میں ہندوستان کے قائدین میں سے ایک حاجی سر محمد مزمل اللہ خان نے مسجد حرام کو ایک بڑی برقی مشین اور اس کے تمام اوزار تحفے میں دیے جسےرمضان کے آغاز میں 1354 ہجری میں استعمال کیا گیا۔


سعودی دور میں مسجد حرام میں روشنی

1373 ہجری میں شاہ عبدالعزیز کے دور کے خاتمے کے ساتھ ہی سعودی الیکٹرسٹی کمپنی کی جانب سے مکہ المکرمہ اور مسجد الحرام میں بجلی متعارف کرائی گئی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ نوے سالوں کے دوران مسجد حرام کے اندر بجلی کے سفر کے دوران مسجد میں لائٹنگ یونٹس کی تعداد تقریباً 120,000 لائٹنگ یونٹس تک پہنچ گئی ۔ان میں عام اور سرچ لائٹس دونوں شامل ہیں۔ تقریباً 6900 بڑے سائز کے فانوس لگائے گئے جن میں سے کچھ کا وزن 750 کلوگرام تک ہے۔ یہ 30 اقسام اور 300 سرچ لائٹس کے درمیان مختلف ہیں۔ ہر ایک کی صلاحیت 200 واٹ ہے۔

بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔