ڈاکٹر منور رانا کا انتقال شعرو ادب کے ایک عہد کا خاتمہ: مقررین

سعودی عرب میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کی بین الاقوامی شاخ اور جامعہ الیومنائی ایسوسی ایشن ریاض کی جانب سے مرحوم شاعر کو خراج عقیدت

<div class="paragraphs"><p>تصویر پریس ریلیز</p></div>

تصویر پریس ریلیز

user

پریس ریلیز

ریاض: سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر منور رانا کے اعزاز میں تعزیتی جلسہ اور دعائیہ مجلس کا انعقاد کیا گیا۔ جلسے میں مرحوم شاعر کو اردو ادب کے لیے اُن کی بیش بہا خدمات اور قومی اور ملی معاملات میں ان کے نظریاتی اور اصولی موقف پر انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔

جلسہ میں بڑی تعداد میں ہندوستانی تنظیموں کے نمائندگان اور اردو زبان و ادب کے شائقین نے شرکت کی اور مرحوم شاعر کی خدمات کو یاد کیا۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کنگ سعود یونیورسٹی کے پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سرور حسین نے کہا کہ منور رانا صاحب کی وفات سے اردو زبان و ادب اور ہندوستان کی تہذیب کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ پروفیسر حسین نے کہا کہ منور رانا نے ماں کی عظمت کو اپنی شاعری کے توسط سے جس طرح مقبول کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے بین الاقوامی کنوینر مرشد کمال نے کہا کہ منور رانا ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حساس طبیعت اور نیک دل انسان بھی تھے جس کی نمایاں جھلک ان کی شاعری میں دکھائی دیتی ہے۔ مرشد کمال نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب حق بات کو ببانگ دہل کہنے والوں اور اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہنے والوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے، منور رانا کا ہمارے درمیان سے رخصت ہو جانا قوم و ملت کا ایک نا قابل تلافی نقصان ہے۔

جامعہ ملیہ الیومنائی ایسوسی ایشن ریاض کے صدر انجئینر غفران احمد نے کہا کہ ڈاکٹر منور رانا کی شاعری سہل اور سادہ زبان میں ہوتی تھی جو ہر خاص و عام کی سمجھ میں آسانی سے آ جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کلام کی سادگی اور فکر کی گہرائی کی وجہ سے مشاعرے کے کامیاب ترین شاعر تھے۔


جامعہ ملیہ اسلامیہ الیومنائی ایسوسی ایشن کے سابق صدر انجینئر خورشید انور نے کہا کہ منور رانا کی وفات ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ منور رانا شعر و سخن کی دنیا کے بادشاہ تھے اور علم و ادب کے بلند ترین مقام پر فائض تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ الیومنائی ایسوسی ایشن کے سابق صدر سید آفتاب علی نظامی نے مرحوم شاعر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار دہائیوں تک مشاعروں میں انکی موجودگی مشاعرے کے کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ الیومنائی کے ایک اور سابق صدر انجینئر انیس الرحمٰن نے بھی مرحوم شاعر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاعر کے علاوہ اُن کی حیثیت قوم کے سرپرست کی بھی تھی اور وہ ہمیشہ ملی معاملات میں بڑی بے باکی اور جرأت سے اپنی بات رکھتے تھے۔

مفتی شبیر احمد ندوی نے مرحوم شاعر کا مختصر خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا ایک درد مند، قوم و ملت کے بہی خواہ اور محب وطن انسان تھے۔ وہ ایک بے باک، نڈر اور غیرت مند شاعر تھے۔ چودھری احسان عظیم نے کہا کہ منور رانا لکھنؤ اور گنگا جمنی تہذیب کے سچے امین تھے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر ارشد علی خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرحوم شاعر اپنی سدا بہار شاعری کے حوالے سے ہمیشہ یا د کیے جائیں گے اور ان کے اشعار ہمیں غیرت اور حمیت کا درس دیتے رہیں گے ۔ ندوۃ العلما الیومنائی ایسوسی ایشن کے صدر مولانا احسن ندوی نے کہا کہ زندہ قومیں اپنے محسنین کو کبھی فراموش نہیں کرتیں اور آج ڈاکٹر منور رانا کی یاد میں وطن سے میلوں دور اس جلسے کا انعقاد اور اس میں کثیر تعداد میں شائقین علم وا دب کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ایک زندہ اور با شعور قوم ہیں۔


مولانا عبدالرحمٰن عمری نے مرحوم شاعر کے چنند ہ اشعار سامعین کی خدمت میں پیش کیے۔ جلسے سے معروف شعراء منصور قاسمی ، عرشی ضیاء اور پروفیسر انیس انصاری نے بھی خطاب کیا اور ڈاکٹر منور رانا کی علمی اور ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جلسہ سید آفتاب علی نظامی کے دعائیہ کلمات پر اختتام پذیر ہوا۔

جلسہ کے اہم شرکاء میں جامعہ الیومنائی ایسوسی ایشن کے نائب صدر نیمو خان، جنرل سکریٹری طارق امام، سابق جوائنٹ سکریٹری نوشاد عالم ، عتیق احمد، تنظیم بسواس کے جنرل سکریٹری اختر الاسلام، عرب نیوز کے راشد حسن، عادل جہانگیر، سید منیر الدین ، امداد ندوی ، وسیع اللہ ندوی ، محمد شمس، باسط ابو معاذ وغیرہ شامل رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔