خواتین

لکھنؤ کی برقعہ رائیڈر عائشہ امین، ’میں ماڈرن ہوں لیکن برقعہ میری طاقت ہے‘

عائشہ کو بچپن سے ہی ڈرائیونگ کا شوق رہا،  جس عمر میں لڑکیاں گڑیوں سے کھیلنا پسند کرتی ہیں اس عمر میں ان کے کھلونے بھی بائیک اور کار والے ہی ہوا کرتے تھے

تصویر آس محمد 
تصویر آس محمد  

نوابوں کے شہر لکھنؤ میں یوں تو کئی ایسی لڑکیاں ہیں جو بائیک چلانے کی شوقین ہیں اور جنہیں ان کے اس شوق کی بنا پر ’بلیٹ کوین‘ کہا جانے لگا ہے لیکن عائشہ امین ایک خاص بائیک رائڈر ہیں جو حجاب پہن کر بائیک چلاتی ہیں۔ اپنے مختلف انداز کی وجہ سے عائشہ کو ’برقعہ رائیڈر‘ کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ 22 سالہ عائشہ کو بچپن سے ہی ڈرائیونگ کا شوق رہا،  جس عمر میں لڑکیاں گڑیوں سے کھیلنا پسند کرتی ہیں اس عمر میں ان کے کھلونے بھی بائیک اور کار والے ہی ہوا کرتے تھے۔

Published: undefined

لکھنؤ کے راجہ جی پورم کی رہائشی عائشہ ’بلڈنگ میٹریل‘ کا کاروبار کرنے والے محمد امین اور آسیہ کی پانچ اولادوں میں سے ایک ہیں۔ آسیہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی عائشہ جدہ میں پیدا ہوئی تھی جہاں اس کے ابو تعمیر کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ وہاں ہمارے پڑوسی کے پاس ہرلے ڈیوڈسن جیسی بائیک تھی اس لئےعائشہ کو بائیک والے کھلونوں سے کھیلنے کا شوق پیدا ہو گیا۔

Published: undefined

عائشہ نے پہلی مرتبہ 2010 میں اپنے بھائی کی ’اسپلینڈر‘ موٹرسائیکل چلائی تھی۔ 18 سال کی عمر کو عبور کرتے ہوئے عائشہ نے بلٹ رائڈنگ پر مہارت حاصل کرنا شروع کر دی۔ عائشہ اب تک 30 موٹر سائیکلیں چلا چکی ہیں اور ان کے پاس رائل ان فیلڈ اور کے ٹیم بائیک موجود ہے۔ وہ اس وقت لکھنؤ کی واحد ایسی رائڈر ہیں جو برقعہ پہن کر بائیک دوڑاتی ہیں اور یہی انداز انہیں سب سے جدا کرتا ہے۔

Published: undefined

لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے کشش علی کا کہنا ہے کہ ’’میں اس کا نام نہیں جانتا لیکن اکثر وہ گومتی کے آس پاس موٹرسائیکل چلاتے نظر آ جاتی ہے۔ اسے برقعہ میں دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ ان کو دیکھ کر کافی ہمت ملتی ہے۔ بات صرف موٹر سائیکل کی ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکیوں کو ان تمام شعبوں میں آگے آنا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

عائشہ کا کہنا ہے کہ ’’میں برقعہ پہن کر بائیک اس لئے چلاتی ہوں کیوں کہ مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ برقعہ اس طرح کے کاموں میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا۔ اگر میں چاہوں تو برقعہ کے بغیر بھی موٹرسائیکل چلا سکتی ہوں۔ یہ میری خود کی مرضی ہے کہ میں یہ کام برقعہ میں ہی کروں۔‘‘

Published: undefined

عائشہ کے مطابق، یہ لڑائی ان مردوں کو جواب دینے کی لڑائی ہے جو خواتین کو کمتر سمجھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے بہت سی غلط باتوں کو غلط ثابت کرنا ہیں۔ مثلاً، لڑکی بھاری موٹرسائیکل چلا نہیں سکتی اور برقعہ خواتین کو مرکزی دھارے میں آنے سے روکتا ہے، میں نے ان دونوں ہی باتوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ میں برقعہ بھی پہنتی ہوں اور میں مردوں کی چیز سمجھی جانے والی بلیٹ بھی دوڑاتی ہوں۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا، ’’کچھ لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں اور مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ملتی ہے جب لڑکیاں مجھے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں۔ وہ ہاتھ ہلا کر میرا استقبال کرتی ہیں۔ مجھ پر محبتیں لٹاتی ہیں اور با بلند آواز میری تعریف کرتی ہیں۔ میں ماڈرن ہوں لیکن برقعہ میری طاقت ہے۔‘‘

Published: undefined

عائشہ کا کہنا ہے کہ لڑکیاں ہر وہ کام کرسکتی ہیں جو لڑکے کرسکتے ہیں، لہذا انہیں احساس کمتری سے باہر آکر اپنی پسند کے مطابق اپنے کام کا انتخاب کرنا چاہیے۔ عائشہ کا کہنا ہے، ’’لوگ مجھے برقعہ ’رائیڈر‘ کہتے ہیں تو انہیں فخر محسوس ہوتا ہے۔ لڑکیوں کو خود پر اعتماد رکھنا چاہیے اور جو بھی کام ملے اسے پوری صلاحیت کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined