کھیل

ہاکی اسٹار نوشاد میو کی بدحالی: اپنے ہی کالج کے باہر پنچر لگانے پر مجبور

غازی آباد کے اسپورٹس ٹیچر پرویز علی نے قومی آواز کو بتایا کہ 3 سال قبل نوشاد کو انہوں نے ہاکی کھیلتے دیکھ کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس لڑکے میں بین الاقوامی سطح پر ہاکی کھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد 

قومی راجدھانی خطہ دہلی کے نزدیک غازی آباد شہر کا رہائشی 20 سالہ محمد نوشاد میو جو قومی ہاکی ٹیم کی نمائندگی کرنے کی صلاحت رکھتا ہے آج ٹھیلے پر پنچر لگانے پر مجبور ہے۔ نوشاد اسٹیٹ لیول چیمپین شپ میں طلائی طمغہ حاصل کرنے والی ٹیم کا رکن ہے اور المیہ یہ ہے کہ وہ پنچر کا ٹھیلا اسی کالج کے سامنے لگاتا ہے جس میں وہ طالب علمی کی زمانے میں ہاکی کھیلتا تھا۔ نوشاد کو کبھی لیفٹ آؤٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا جاتا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد خاندان کی پرورش کی ذمہ داری اس نوجوان کے کاندھوں پر آ گئی اور اسے ہاکی کے اپنے شوق کو ترک کر دینا پڑا۔ تقریباً 12 سال کی عمر میں ہاکی کھیلنی شروع کرنے والے اس کھلاڑی کو محض 18 سال کی عمر میں ہی ہاکی اسٹک کو کھونٹی پر ٹانگ دینا پڑا۔

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

شمبھو دیال کالج کے باہر کھڑا نوشاد میو

غازی آباد کے اسپورٹس ٹیچر پرویز علی نے قومی آواز کو بتایا کہ 3 سال قبل نوشاد کو انہوں نے ہاکی کھیلتے دیکھ کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس لڑکے میں بین الاقوامی سطح پر ہاکی کھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ نوشاد اس وقت اسٹیٹ چیمپین شپ میں کھیل رہا تھا۔ وہ شمبھو دیال انٹر کالج کا طالب علم تھا اور مہامایا اسٹیڈیم غازی آباد میں پریکٹس کرتا تھا۔ شمبھو دیال کالج کو بھی نوشاد پر فخر تھا اور نوشاد ہاکی کے فلک پر ستارہ بن کر چمک رہا تھا۔

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

مگر تین سالوں میں ہی نوشاد کی دنیا بدل گئی۔ اس کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے اور باپ جیسے کوچ رام نواس تیاگی بھی دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئے۔ نوشاد کو اپنے والد محمد یاسین کی پنچر کی دکان چلانی پڑی اور اس نوجوان نے ہاکی کو خیرباد کہہ دیا۔ واضح رہے کہ کوچ رام نواس تیاگی نے نوشاد کو ہاکی کھیلنے میں بہت مدد کی تھی۔

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

بیس سالہ نوشاد میو غازی آباد کے محلہ اسلام نگر کے ایک 60 گز کے مکان میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہے۔ اپنے والد کے حیات رہتے اس کی زندگی میں ہاکی کی بڑی اہمیت تھی۔ صرف چھٹی جماعت میں ہاکی کھیلنی شروع کرنے والے نوشاد کے خوابوں کی عمر صرف 2015 تک ہی تھی جب اسے اپنے ہی کالج کے باہر واقع اپنے والد کی پنچر کی دکان سنبھالنی پڑی۔ والد کے جانے کے بعد بھی نوشاد کچھ دنوں تک ہاکی کھیلتا رہا لیکن اچانک اس کے کوچ رام نواس تیاگی کی بھی موت ہو گئی اور نوشاد کے خواب ریزہ ریزہ ہو گئے۔

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

غازی آباد میں شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ عظیم شاہراہ (جی ٹی روڈ) پر واقع شمبھو دیال کالج کے لئے کھیلتے ہوئے 12 سال کی عمر میں نوشاد پہلی بار مرزا پور کھیلنے کے لئے گیا تھا۔ 2015 میں غازی آباد میں اسٹیٹ چیمپین شپ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی ٹیم کی نمائندگی کرنے والا نوشاد آج ٹھیلے پررکھے اپنے ساز و سامان سے پنچر لگاتا ہے۔

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

نوشاد نے قومی آواز کو بتایا، ’’پاکی کھیلنے میں کنبہ کے کسی رکن کو دلچسپی نہیں تھی، میں سینیئر کھلاڑی ونود سے کافی متاثر تھا۔ کالج کے دنوں میں مجھے لگا کہ میں کھیل سکتا ہوں تو کھیلنے لگا۔ لڑکے بتاتے تھے کہ اگر قومی ٹیم میں کھیلا تو سرکاری نوکری مل جائے گی۔ میں سرکاری نوکری اس لئے چاہتا تھا کہ میرے خاندان کی غریبی دور ہو سکے۔ جب بھی میں ہاکی اسٹک سے بال کو مارتا تھا تو مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں اپنی غریبی کو دور پھینک رہا ہوں، میری بال تو دور چلی گئی لیکن غریبی پھر پلٹ کر واپس آ گئی۔‘‘

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

نوشاد جذباتی انداز میں کہتے ہیں، ’’ابو کو ابھی نہیں جانا چاہیے تھا وہ وقت سے پہلے چلے گئے۔ امی کو تو کھیل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ ایک بہن کی شادی بھی کرنی تھی۔ ایک بڑے بھائی ہیں وہ ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں۔ گھر کی ضروریات پوری کرنے پر ہی زور رہتا ہے۔ میں پنچر لگانا چھوڑ نہیں سکتا، گھر کا آٹا اسی کی آمدنی سے آتا ہے تو ہاکی کو چھوڑ دیا۔ دراصل میری امی کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہاکی سے گھر کا خرچ کیسے چلے گا! پنچر بنا کر قریب 300 روپے روزانہ کما لیتا ہوں، ہاکی کو تو دو سال سے ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

جوڈو کے کوچ پرویز علی نے نوشاد کی قابلیت کو دیکھ کر اس کے لئے کچھ کرنے کا عزم کیا۔ پرویز نہیں چاہتے کہ پیسوں کی قلت میں کوئی کھلاڑی گمنامی میں چلا جائے۔ پرویز کا کہنا ہے کہ وہ نوشاد کی رہنمائی کریں گے، اسے میدان پر واپس آنا ہی ہوگا۔

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

زندگی کی تلخیوں نے نوشاد کو اندر سے ہلا دیا ہے اور اب اس کا جوش بھی کمزور نظر آتا ہے۔ اس سے بات چیت کرنے پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ نظام سے پوری طرح مایوس ہو چکا ہے۔ یوں تو ہاکی ہندوستان کا قومی کھیل ہے لیکن اس کے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو فروغ دینے کا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا اور ذمہ داروں کی لاپروائی کے نتیجہ میں نوشاد جیسا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی غروب ہو جاتا ہے۔

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 29 Jul 2020, 9:12 PM IST