کھیل

خالد احمد جمیل، جس نے اپنی چھاپ ہر جگہ چھوڑی ہے

خالد جمیل نے بطور کھلاڑی اور کوچ فٹبال میں اپنی محنت، صبر اور حکمت عملی سے مقام بنایا۔ خاموش مزاج مگر مضبوط ارادوں کے ساتھ وہ اب قومی ٹیم کے کوچ کی حیثیت سے ایک نئے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>خالد احمد جمیل / آئی اے این ایس</p></div>

خالد احمد جمیل / آئی اے این ایس

 
IANS_ARCH

خالد احمد جمیل نے ہندوستانی فٹبال میں ہمیشہ ایک مشکل راستہ اختیار کیا ہے۔ خاموش مزاج، سنجیدہ طبیعت اور شوروغل سے دور رہنے والے جمیل نے اپنی شناخت باتوں سے نہیں بلکہ کارکردگی سے بنائی۔ ممبئی ایف سی کے ساتھ ایک مستحکم سفر سے لے کر آئیزوال ایف سی کے ساتھ آئی لیگ کا ایک ناقابلِ یقین خواب سچ کرنے تک، کولکاتا کے مشہور کلبوں کی کوچنگ سے لے کر انڈین سپر لیگ (آئی ایس ایل) کے بعد اب ہندوستانی فٹبال ٹیم کے ہیڈ کوچ کی ذمہ داری کا سفر حوصلے، صبر اور یقین کی ایک طویل داستان ہے۔ 

Published: undefined

خالد احمد جمیل 21 اپریل 1977 کو کویت سٹی، کویت میں ہندوستانی پنجابی والدین کے یہاں پیدا ہوئے۔ وہ فرانسیسی کھلاڑی اور کوچ مائیکل پلاٹینی کے بڑے مداح تھے اور انہوں نے ایک انڈر-14 کیمپ کے دوران پلاٹینی سے ملاقات بھی کی تھی۔ بعد ازاں وہ ہندوستان آ گئے جہاں انہیں ایسٹ بنگال اور موہن بگان جیسے بڑے کلبوں سے معاہدے کی پیشکش ہوئی لیکن چونکہ یہ کلب شراب بنانے والی کمپنیوں کی اسپانسرشپ میں تھے، اس لیے انہوں نے ان پیشکشوں کو مسترد کر دیا۔

کوچنگ سے پہلے، خالد جمیل ایک باصلاحیت مڈفیلڈر کی حیثیت سے ہندوستانی  قومی ٹیم کی نمائندگی کر چکے تھے لیکن یہ سفر زیادہ طویل نہ رہا۔ انہوں نے 1997 میں مہندرا یونائیٹڈ سے اپنا پیشہ ورانہ کیریئر شروع کیا اور 1998 میں ایئر انڈیا میں شامل ہو گئے۔ 2000-01 سیزن کے دوران انہوں نے ایئر انڈیا کے لیے اپنے پہلے پیشہ ورانہ میچز کھیلے۔ اس دوران انہیں برونائی کے ایک کلب سے معاہدے کی پیشکش بھی ہوئی اور انہوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا جس فیصلہ کا انہیں افسوس رہا۔ 2002 میں وہ دوبارہ مہندرا یونائیٹڈ لوٹے لیکن لگاتار چوٹوں کی وجہ سے زیادہ کھیل نہ سکے اور بالآخر جلد ہی فٹبال کو خیر باد کہنا پڑا۔

Published: undefined

خالد جمیل نے اپنا بین الاقوامی ڈیبیو 1998 میں ازبکستان کے خلاف ایک دوستانہ میچ میں کیا۔ بعد ازاں وہ 2002 کے ورلڈ کپ کوالیفائرز میں بھی شریک ہوئے، جہاں ہندوستان نے متحدہ عرب امارات، برونائی اور یمن جیسے حریفوں کو شکست دی۔ ہندوستان نے 6 میچوں سے 11 پوائنٹس حاصل کیے، جو یمن کے برابر تھے، مگر گول ڈیفرنس کی بنیاد پر پیچھے رہا۔ انہوں نے 1998 سے 2006 کے درمیان ہندوستانی قومی ٹیم کی طرف سے 40 میچز کھیلے، جن میں انہیں سید نعیم الدین اور بعد ازاں سکھوندر سنگھ کی کوچنگ میں کھیلنے کا موقع ملا۔

2009 میں حالات نے انہیں فٹبال چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ مگر وہ کھیل سے الگ ہونے کو تیار نہ تھے، اس لیے انہوں نے ممبئی ایف سی کی انڈر-19 ٹیم کی کوچنگ کا عہدہ قبول کر لیا، یہ جانے بغیر کہ ایک خواب کا اختتام ایک نئے سفر کا آغاز بن جائے گا۔

Published: undefined

خالد جمیل نے اپنا بین الاقوامی ڈیبیو 1998 میں ازبکستان کے خلاف ایک دوستانہ میچ میں کیا۔ بعد ازاں وہ 2002 کے ورلڈ کپ کوالیفائرز میں بھی شریک ہوئے، جہاں ہندوستان نے متحدہ عرب امارات، برونائی اور یمن جیسے حریفوں کو شکست دی۔ ہندوستان نے 6 میچوں سے 11 پوائنٹس حاصل کیے، جو یمن کے برابر تھے، مگر گول ڈیفرنس کی بنیاد پر پیچھے رہا۔ انہوں نے 1998 سے 2006 کے درمیان ہندوستانی قومی ٹیم کی طرف سے 40 میچز کھیلے، جن میں انہیں سید نعیم الدین اور بعد ازاں سکھوندر سنگھ کی کوچنگ میں کھیلنے کا موقع ملا۔

2009 میں حالات نے انہیں فٹبال چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ مگر وہ کھیل سے الگ ہونے کو تیار نہ تھے، اس لیے انہوں نے ممبئی ایف سی کی انڈر-19 ٹیم کی کوچنگ کا عہدہ قبول کر لیا ، یہ جانے بغیر کہ ایک خواب کا اختتام ایک نئے سفر کا آغاز بن جائے گا۔

Published: undefined

کوچنگ میں ان کا سفر جلد ہی عروج پر پہنچا۔ نوجوان ٹیم کے ساتھ اچھی کارکردگی کے بعد انہیں ممبئی ایف سی کی سینئر ٹیم کی کوچنگ سونپی گئی۔ 2009 سے 2016 تک جمیل نے محدود وسائل اور کم توقعات کے باوجود ممبئی ایف سی کو ہر سال آئی لیگ میں ریلیگیشن  سے بچائے رکھا۔

ان کی ٹیمیں دفاعی طور پر منظم، حکمت عملی کے لحاظ سے مضبوط اور میدان میں سخت مزاحم ہوا کرتی تھیں۔ اگرچہ کوچنگ میں کوئی نام نہیں کمایا لیکن انہوں نے اپنے کوچنگ کے دوران کھلاڑیوں کی عزت کمائی  لیکن خالد جمیل کی ایک پُراعتماد، محنتی اور سادہ کوچ کی حیثیت سے شہرت بڑھتی گئی۔یہ سفر آج بھی جاری ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ہندوستانی قومی ٹیم کے کوچ کے کردار میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نقاد کا منہ بھی بند کرنا ہے کہ اے آئی آئی ایف نے پیسوں کی کمی کی وجہ سے ان کی تقرری کی ہے اور یہ سب وہ ہندوستانی ٹیم کی شاندار کراکردگی سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسے شخص کا سفر ہے، جس نے فٹبال کے میدان میں اپنی جگہ خاموشی سے بنائی، مگر دیرپا چھاپ چھوڑی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined