سماج

افغانستان: زعفران کاشت کرنے والی خواتین طالبان کے دور اقتدار میں پریشان

افغانستان میں زعفران کی فصلوں میں کام کرنے والی ہزاروں محنت کش خواتین طالبان کے سامنے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا چاہتی ہیں۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس 

افغانستان میں زعفران کے کاروبار سے منسلک خاتون شفیق عطائی کے زعفران کے کھیتوں پر کئی سو محنت کش خواتین کام کرتی ہیں۔ عطائی کہتی ہیں کہ طالبان انہیں خاموش نہیں کرا سکتے۔

Published: undefined

سخت گیر نظریات رکھنے والے طالبان نے رواں برس اگست کے وسط میں افغانستان پر قبضے کے بعد سے خواتین کو عوامی سرگرمیوں سے ایک مرتبہ پھر دور رکھا ہے۔ ان حالات میں کاروبار کرنے والی کئی خواتین ملک چھوڑنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ طالبان کے موجودہ دور اقتدار میں افغان خواتین کو ماضی کی سختیوں کا دوبارہ سے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Published: undefined

طالبان نے سن 1996 سے سن 2001 تک اپنے پہلے دور حکومت میں خواتین پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں، جن کی وجہ سے ان پر تعلیم، ملازمت اور کاروبار کے دروازے بند ہو گئے تھے۔ اس دوران افغان خواتین کو کسی مرد رشتہ دار کے ساتھ ہی گھر سے باہر جانے کی اجازت ہوتی تھی۔

Published: undefined

زعفران - 'سرخ سونا‘

شفیق عطائی نے سن 2007 میں افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں 'پشتون زرغون زعفران وومین کمپنی‘ کے نام سے اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ کمپنی اپنی ساٹھ ایکڑ زمین پر تقریباﹰ ایک ہزار خواتین ورکرز کی مدد سے دنیا کے مہنگے ترین مصالحے زعفران کی پیداوار، پراسیسنگ اور پیکیجنگ کرتی ہے۔ اس کے بعد زعفران کو بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے۔ عطائی کے بقول، ''چاہے کچھ بھی ہوجائے، ہم صرف گھروں پر نہیں بیٹھیں گے، کیونکہ ہم نے بہت محنت کی ہے۔‘‘

Published: undefined

زعفران کی فصلوں میں مزدوری کرنے والی خواتین اس کام کے ذریعے اپنے خاندان کی کفالت کرتی ہیں۔ عطائی کہتی ہیں کہ اس آمدن سے وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتی ہیں، ان کے لیے اچھے کپڑے اور دیگر ضروری اشیاء خرید سکتی ہیں۔

Published: undefined

چالیس سالہ شفیق عطائی کے بقول، ''ہم نے بہت محنت کی ہے اور ہم خاموشی سےنہیں بیٹھیں گے۔ وہ ہمیں نظرانداز کرنا بھی چاہییں، تب بھی ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔‘‘

Published: undefined

افغانستان افیون اور ہیروئن کا دنیا کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، جو کہ عالمی پیداوار کا 80 سے 90 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ افغان زعفران کی پیداوار زیادہ تر ہرات صوبہ میں ہی کی جاتی ہے۔ فی کلو پانچ ہزار امریکی ڈالر سے زائد قیمت کے ساتھ زعفران دنیا کا مہنگا ترین مصالحہ ہے۔ اسے پکوان، پرفیوم، ادویات، چائے اور یہاں تک کہ افروڈیسیاک یعنی جنسی عمل کی چاہ میں اضافے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ زعفران کو 'سرخ سونا‘ بھی کہا جاتا ہے۔

Published: undefined

افغانستان میں تپتی دھوپ میں اگائے جانے والے، عمدہ اور روشن جامنی زعفران کے پھولوں کی کٹائی اکتوبر اور نومبر میں کی جاتی ہے۔ ان فصلوں میں کام کرنے والی زیادہ تر مزدور کاشت کار خواتین کی عمر پچاس سے ساٹھ برس کے درمیان ہے۔ وہ صبح سویرے زعفران کے پھولوں کو خشک ہونے سے پہلے پہلے چننا شروع کردیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ پھولوں کی پتیوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دھاگے یا سِگما نکال لیتی ہیں۔ یہ انتہائی مہارت اور محنت طلب کام ہوتا ہے۔

Published: undefined

عطائی کو اپنے کاروبار کے مستقبل کے ساتھ ساتھ افغانستان بھر کی ایسی خواتین، جو تعلیم، روزگار اور حکومت میں نمائندگی کے بغیر ایک غیر یقینی صورتحال میں رہ رہی ہیں، کی فکر ستاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پریشانی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ امارت اسلامی میں ان کے روزگار کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کے بقول، ''انہوں [طالبان] نے خواتین کو اسکول اور یونیورسٹی جانے سے روک رکھا ہے، اور حکومت میں کوئی عہدہ بھی نہیں دیا۔ میں فکر مند ہوں کے آگے کیا ہوگا۔‘‘

Published: undefined

افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کے بعد سے ایران اور ترکمانستان کی سرحد کے قریب واقع ہرات شہر سے بھی کاروبار کرنے والی کئی خواتین نقل مکانی کر چکی ہیں۔ شفیق عطائی کہتی ہیں کہ وہ بھی ملک چھوڑ کر جا سکتی ہیں لیکن یہ کرنے سے ان کی تمام محنت ضائع ہوجائے گی۔

Published: undefined

ہرات کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ یونس قاضی زادہ امید کرتے ہیں کہ طالبان حکومت ان خواتین کو واپس لوٹنے اور اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کا سرکاری اعلان کرے۔ فی الحال عطائی کی کمپنی کا مستقبل شک و شبہات کا شکار ہے۔ قاضی کے بقول، ''ہم امید کرتے ہیں کہ اس ملک میں خواتین دوبارہ کاروبار کر سکیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined