بھارتی پارلیمان میں کل ایک بار پھر سے اس وقت ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی جب حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھارت اور چین کی سرحد پر کشیدہ صورت حال پر بحث کا مطالبہ کیا۔ اس کی وجہ سے اجلاس کو معطل کرنا پڑا جبکہ اپوزیشن نے متحدہ طور پر پارلیمان کے سامنے بطور احتجاج مظاہرہ کیا۔
Published: undefined
اس احتجاج کی قیادت کانگریس پارٹی کر رہی ہے جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتیں اس کے اس مطالبے کے ساتھ ہیں کہ چین کے ساتھ سرحدی صورتحال پر وزیر اعظم نریندر مودی کو بیان دینا چاہیے۔
Published: undefined
متحدہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے توانگ میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان جو حالیہ جھڑپیں ہوئی ہیں اور اس حوالے سے سرحد پر جو کشیدگی پائی جاتی ہے، اس پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیے۔ تاہم حسب معمول مودی حکومت نے اسے ایک بار پھر مسترد کردیا۔
Published: undefined
کانگریس کی جانب سے پارٹی کی صدر سونیا گاندھی اس احتجاجی مظاہرے کی قیادت کر رہی تھیں، جن کا کہنا تھا: ''حکومت اپنی ضد پر قائم ہے اور چین کی خلاف ورزیوں پر بحث نہیں کر رہی ہے۔ عوام اور ایوان اصل صورتحال سے واقف نہیں ہے۔ آخر چین نے جو دراندازی کی ہے، اس کا حکومت جواب کیوں نہیں دے رہی؟''
Published: undefined
اس سے پہلے کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ کے دوران بھی رکن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے حکومت کے رویے پر شدید نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر صورت حال کافی کشیدہ ہے، تاہم حکومت اس پر بات چیت سے بھی گریز کر رہی ہے۔
Published: undefined
بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتیں کافی وقت سے چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے حوالے سے بحث کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، تاہم وہ اس پر بحث کے بجائے محض ایک بیان جاری کر دیتی ہے۔ دو روز قبل وزیر خارجہ جے شنکر نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرحد پر اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے کہ ماضی میں اس سے قبل اتنی تعداد میں کبھی بھی فوج تعینات نہیں تھی۔
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ ''اس پر سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں... تاہم اپنے فوجیوں کے لیے پٹائی کا لفظ استعمال کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اس سے ان کی حوصلہ شکنی ہو تی ہے جو اتنی بلندی پر ملک کی حفاظت پر مامور ہیں۔''
Published: undefined
یہ بات انہوں نے راہل گاندھی کے اس بیان کے جواب میں کہی تھی کہ مودی حکومت آرام سے بیٹھی رہی، جبکہ توانگ میں بھارتی فوجیوں کو پٹائی لگ رہی تھی۔ انہوں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ چینی فوجی توانگ کے ایک بڑے علاقے کے اندر داخل ہو گئی ہے۔
Published: undefined
راہل گاندھی ماضی میں کئی بار مودی حکومت کو اس بات کے لیے چیلنج کرتے رہے ہیں کہ وہ لداخ اور اروناچل پردیش میں سرحدی صورتحال پر بحث کرا کے تو دیکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ لداخ کی مشرقی سرحد پر چینی فوجیوں نے دراندازی کی ہے۔
Published: undefined
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اس معاملے پر پارلیمان میں بحث اس لیے نہیں چاہتی کیونکہ اگر وہاں صورتحال سے متعلق سچ بات کہی گئی، تو اس سے حکومت کو کافی سبکی اٹھانی پڑے گی۔
Published: undefined
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے سابق سکریٹری اور سینیئر صحافی سنجے کپور کہتے ہیں کہ ڈر یہ ہے کہ، اس پر طرح طرح کے سوال اٹھیں گے، بہت ساری کمزوریاں سامنے آ جائیں گی۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کو یہ بھی دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ''ہم قابل ہیں ۔‘‘
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر بحث ہوئی تو، ''انہیں بہت سی ایسی چیزیں قبول کرنا پڑیں گی، جو وہ کرنا نہیں چاہتے۔ وہ (چینی فوج) اندر آئے، کہ نہیں آئے اور آئے تو کتنا اندر آئے۔ یہ سب بتانا پڑے گا۔ صورتحال کے بارے میں کسی کو صحیح پتہ نہیں ہے، حکومت کو ہی صحیح بات معلوم ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ سچائی سامنے نہ آنے پائے۔''
Published: undefined
ایک سوال کے جواب میں کہ جمہوریت میں ان مسائل پر پارلیمان میں بحث تو ہونی چاہیے، ان کا کہنا تھا، ''یہ سب نظریاتی باتیں ہیں، عملًا ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اب اہم امور کو سوشل میڈیا پر ڈسکس ہوتے ہیں، پارلیمان میں ان پر کہاں بحث ہوتی ہے۔''
Published: undefined
جب سے توانگ میں بھارتی فوجیوں پر حملے کی بات سامنے آئی ہے اسی وقت سے میڈیا اور پارلیمان میں ہنگامہ برپا ہے۔ حکومت کے مطابق نو دسمبر کو توانگ سیکٹر کے یانگسے علاقے میں چینی فوجیوں نے بھارتی پوسٹ پر حملہ کر کے موجودہ صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔
Published: undefined
وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ''ہمارے فوجیوں نے عزم مصمم کے ساتھ چینی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔'' انھوں نے بتایا تھا کہ ''تصادم کے دوران ہمارے کسی فوجی کی موت نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی سنگین طور پر زخمی ہوا۔'' تاہم حزب اختلاف ان کے اس بیان سے مطمئن نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined