سماج

جنسی استحصال کے شکار بچے کہاں جائیں؟

بچوں کا جنسی استحصال پاکستانی معاشرے کا ناسور بنتا جا رہا ہے۔ اس مسئلے پر آگاہی بڑھنے کے باوجود گزشتہ سال کی نسبت اس برس ایسے واقعات میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

جنسی استحصال کے شکار بچے کہاں جائیں؟
جنسی استحصال کے شکار بچے کہاں جائیں؟ 

بچوں کے تحفظ، خاص کر بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل نے اپنی جنوری تا جون 2021ء کی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں ان چھ ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 1084واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس اعداد و شمار کے حساب سے روزانہ تقریباً 10 بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Published: undefined

ایک حقیقی کہانی

اسلام آباد کا رہائشی 12 سالہ حمزہ (فرضی نام ) اپنے پڑوس میں رہنے والے بچوں کے ہا تھوں کئی بارجنسی زیادتی کا شکار ہوا۔ حمزہ کی والدہ ڈاکٹر جبکہ والد سرکاری ادارے میں ملازم ہیں۔ والدہ صبح اور والد شام کو اپنے کام پر جاتے تھے اور اس بیچ شام میں ایک گھنٹہ حمزہ گھر پر اکیلا ہوتا تھا۔ اس دوران وہ پڑوس کے فلیٹ میں چلاجاتا تھا۔ پڑوس کے لڑکے حمزہ سے عمر میں بڑے تھے اور وہ وہاں مختلف فحش ویڈیوز دیکھتے اور حمزہ کا جنسی استحصال بھی کرتے۔ یہ سلسلہ 5 سے 6 ماہ چلتا رہا۔

Published: undefined

حمزہ کو اس سلوک کی وجہ سے صدمے کا شکار ہو گیا اور خوف سے یہ بات اپنے والدین سے بھی چھپا کر رکھی کہ کہیں بتائے بغیر پڑوس میں جانے پر وہ ناراض نہ ہو جائیں۔

Published: undefined

اس تمام معاملے کے دوران حمزہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا، تنہائی کا شکار رہنے لگا ساتھ ہی اس کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگی۔ حمزہ کے والدین نے اپنے بچے کے اس رویے پر پریشان ہو کر اسے ماہر نفسیات ڈاکٹر عظمٰی مسرور کے پاس لے گئے۔

Published: undefined

ایئر یونیورسٹی کے ہیومنٹیز، ایجوکیشن اور سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر عظمیٰ مسرور کہتی ہیں کہ جب اس بچے کو میرے پاس لایا گیا تو یہ کافی سہما ہوا تھا۔ انہوں نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا،''تھیراپی کے دوران اس نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات بتائے۔ ڈھائی ماہ کی تھیراپی کے بعد اب حمزہ نارمل زندگی کی طرف لوٹا ہے۔‘‘

Published: undefined

ڈاکٹر عظمٰی کہتی ہیں کہ ان کے پاس آنے والے مریضوں میں سے 70 فیصد مریض بچپن میں ایک یا ایک سے زائد بار جنسی زیادتی کا شکار بن چکے ہوتے ہیں،''جوں جوں یہ بچے بڑے ہوتے ہیں یہ یادیں ان کے ساتھ رہتی ہیں اور انہیں صدمہ پہنچاتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بظاہر انہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی جس کو ہم نفسیاتی عارضہ کہیں لیکن وہ لوگ بے چینی اور بے سکونی کا شکار رہتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

ساحل کی جانب سے جاری کردہ ششماہی اعداد و شمار کے مطابق 1045واقعات میں بچوں کے قریبی رشتے دار جبکہ اور 430 واقعات میں انجان لوگ ملوث پائے گئے۔

Published: undefined

ڈاکٹر عظمٰی کے بقول بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے بہت سے واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے، ''اس میں والدین کا کردار سب سے اہم ہے۔ ماحول ایسا رکھیں کہ بچے کھل کر اپنے مسائل بتا سکیں۔ والدین بچوں کی بات پر بھی توجہ دیں۔ بعض اوقات بچہ بتانا چاہ رہا ہوتا ہے لیکن والدین اس کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔‘‘

Published: undefined

تھیراپی کے ذریعے علاج

ڈاکٹر عظمیٰ امریکن سرٹیفائیڈ ٹرینر اور پاکستان ایسوسی ایشن آف کلینیکل سائیکالوجسٹ کی صدر بھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس صدمے یا ذہنی مسئلے سے نکالنے کے لیے مختلف قسم کی تھیراپیز سے مدد لی جاتی ہے جیسا کہ سائیکلوجیکل انٹروینشن اور ٹاک تھیراپی ہے۔

Published: undefined

وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس طرح کی تھیراپی میں صدمہ پہنچانے کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔،'' دماغ میں تکلیف کے جو پہلو ہیں، انہیں کم کیا جاتا ہے۔ مریض کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس وقت جو بھی کچھ ہوا اس میں اس کا ہاتھ نہیں تھا۔ اس بات کو قبول کروایا جاتا ہے تا کہ وہ خود کو قصوروار نہ سمجھے۔ اس کا کیتھارسس ہو جائے۔ اس صدمے سے نکالنے کے بعد اس فرد کو زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے مثبت تجاویز بھی دی جانا ضروری ہیں۔‘‘

Published: undefined

محفوظ بچپن کی مرتب کر دہ اقدامات

چیئرپرسن قومی کمیشن برائے حقوق اطفال افشاں تحسین نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے،''ہمارے ہاں وقتی کام ہوتے ہیں پالیسیاں بنتی اور ختم ہو جاتی ہیں۔ جنسی استحصال کے خلاف جو قوانین بنائیں گئے ہیں، ان کا نفاذبہت ضروری ہے۔‘‘

Published: undefined

وہ مزید کہتی ہیں کہ آرٹیکل 25 اے کی رو سے ریاست بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائے،'' اب تک غیر سرکاری تنظیمیں ہی بچوں کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حکومت اور پیمرا کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ قوانین کے نفاذ کے ساتھ شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی آگاہی مہم چلائیں، سروسز مہیا کریں تا کہ اس جرم کا جڑ سے خاتمہ ہو۔‘‘

Published: undefined

جنسی زیادتی ایک سنگین جرم ہے لیکن پاکستان میں اس جرم کی سزا دینے کی شرح انتہائی کم ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined