سماج

اور کیا چاہیے ریپ کرنے والوں کو؟

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف نائن میں 460 ایکڑ پر پھیلا ہوا پارک 1992 سے عوام کے لیے کھلا ہوا ہے۔ اس پارک میں وہ سب کچھ ہے جو شہریوں کے لیے ہونا چاہیے۔

اور کیا چاہیے ریپ کرنے والوں کو؟
اور کیا چاہیے ریپ کرنے والوں کو؟ 

ایک کونے میں ایک انٹرنیشنل فوڈ چین کی عمارت، جوگنگ ٹریک، بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور جھولے، سستانے کے لیے بینچ، نمائشوں کے لیے مختص جگہ، پارک کے اردگرد آہنی حفاظتی جنگلا، آنے جانے والے دروازوں پر واجبی سیکورٹی، پارک کی دیکھ بھال کے لیے سی ڈی اے کا عملہ، چاروں جانب مصروف سڑکیں، پاک فضائیہ کا اسپتال اور یونیورسٹی پارک کے اندر روشنی کا انتظام وغیرہ وغیرہ۔ شام ڈھلے اس پارک میں بہت سے کنبے اور جوڑے آتے ہیں۔ ان کے سبب پارک کے ایک چوتھائی حصے میں چہل پہل رہتی ہے۔

Published: undefined

ایسے میں اس پارک میں پہلا ریپ 2018 میں ہوا۔ ہا ہا کار مچی۔ اتنے وسیع و عریض رقبے کی اپنی سیکورٹی ایجنسی بنانے کا مطالبہ ہوا۔ روشنی کا انتظام بہتر بنانے کا مطالبہ ہوا۔ نگرانی کے لیے پارک میں معیاری کیمرے لگانے کا مطالبہ ہوا۔

Published: undefined

کچھ عرصے تک بچے اور خواتین شام ڈھلے یہاں آنے سے ڈرتے بھی رہے اور پھر زندگی رفتہ رفتہ پرانے ڈھرے پر آ گئی۔ احتجاج اور مطالبات کرنے والے بھی مصروف ہو گئے اور جن سے مطالبات کیے گئے، وہ بھی اپنی ذمہ داریاں حسبِ معمول بھول بھال گئے۔ پچھلے ہفتے پھر یہی ایف نائن پارک ٹی وی چینلوں سے لے کر قومی اسمبلی کے ایوان تک چھا گیا۔

Published: undefined

ایک خاتون جو اپنے ایک دفتری ساتھی کے ہمراہ اس پارک میں سینکڑوں دیگر شہریوں کی طرح موجود تھی۔ ان دونوں کو دو مسلح افراد دیگر لوگوں کے سامنے سے ہنکال کے نسبتاً ویران گوشے میں لے گئے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا اور پھر اس خاتون کو ریپ کیا گیا۔ خاتون چیخی چلائی بھی مگر یا تو کسی نے آواز نہیں سنی یا پھر یہ ظاہر کیا کہ آواز نہیں سنی۔

Published: undefined

البتہ اس خاتون میں کم ازکم اتنی جرات ضرور تھی کہ اس نے وقوعے کی رپورٹ تھانے میں درج کرائی اور جو جو اس کے ساتھ بیتی وہ سب لکھوایا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ دونوں ریپسٹ اتنے نڈر تھے کہ خاتون کے شور مچانے اور دیگر لوگوں کی موجودگی سے بھی نہیں گھبرائے، بلکہ انہوں نے نہایت اطمینان سے کہا کہ اگر وہ شور مچانے سے باز نہ آئی تو پانچ چھ اور لوگوں کو ریپ کے لیے بلا لیا جائے گا۔

Published: undefined

اس کے کپڑے دور پھینک دیے گئے تاکہ وہ بھاگ نہ سکے، اور پھر اسے ایک ہزار روپے کا نوٹ دے کر کپڑے واپس کرتے ہوئے کہا گیا کہ آئندہ یہاں کا رخ نہ کرنا۔ پولیس نے وہی کیا جو کیا جاتا ہے۔ ایک ملزم کا خاکہ بنا کے مشتہر کر دیا۔ دوسرے کی تلاش جاری ہے۔ کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ چار برس پہلے جب اسی پارک میں پہلا ریپ ہوا تھا اس کے بعد سے اس جگہ کو عام شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔ اور اس پارک کی سیکورٹی کی بنیادی ذمہ داری پولیس کی ہے یا کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی؟

Published: undefined

واردات کے تین دن بعد الیکٹرونک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) نے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگا دی کہ وہ ایف نائن پارک ریپ کیس کی کوریج نہیں کر سکتے۔ نہ ہی اس بابت کوئی تبصرہ برداشت کیا جائے گا۔ جس نے یہ حکم نہ مانا اس چینل کا لائسنس معطل کر دیا جائے گا۔ وجہ اس پابندی کی یہ بتائی گئی کہ چند چینلز نے ریپ متاثرہ کا نام نشر کر کے پیمرا ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔

Published: undefined

بجائے یہ کہ ان دو تین چینلز کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاتی، اس واقعہ کو ہی بلیک آؤٹ کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔ اگر یہ اقدام درست ہے تو پھر اسی منطق کی روشنی میں ایف نائن پارک سمیت تمام پارکوں کو بھی تالا لگا دینا چاہیے تاکہ نہ کوئی یہاں کا رخ کرے اور نہ ہی ریپ ہو۔ اس طرزِ عمل سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے لا اینڈ آرڈر کے بحران سے موثر طور پر نمٹنے کی کتنی خواہش اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک شہریوں کا کھلی فضا میں سانس لینے کا حق کتنا اہم ہے۔

Published: undefined

جتنی جرات اور اعتماد کا مظاہرہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ایف نائن پارک کے دو مسلح ریپسٹس نے کیا، لگ بھگ اتنی ہی جرات کا مظاہرہ کراچی سے لاہور جانے والی ایک مشہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی مسافر بس کے سیکورٹی گارڈ اور ڈرائیور نے کیا۔ دونوں نے پنجاب میں میلسی کے بس ٹرمینل پر بس خالی کروائی اور اپنی ہی ساتھی خاتون ہوسٹس کو بس کے دروازے بند کر کے ریپ کر دیا۔ بسوں میں ریپ کا یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں۔

Published: undefined

گزشتہ برس لاہور سے کراچی جانے والی ایک ٹرین میں ایک خاتون مسافر ریلوے کے تین ملازمین کے ہاتھوں ریپ ہو گئی۔ بعد ازاں خاتون کی شکایت پر ریلوے پولیس نے ان ملازموں کو حراست میں لے لیا۔ پاکستان کو یونہی خواتین کے لیے غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں پانچواں درجہ حاصل نہیں۔ تجربہ کار وارداتی جانتے ہیں کہ اس ملک میں ریپ ثابت ہونے اور پھر عبرت ناک سزا ملنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

Published: undefined

ریپسٹ جانتے ہیں کہ صرف انہی بے وقوفوں کو سزا ملتی ہے جن پر میڈیا کا مسلسل فوکس ہو اور اس فوکس کے سبب ریاستی اداروں کو وقتی بدنامی سے بچنے کے لیے بادلِ نخواستہ تھوڑی بہت پھرتیاں دکھانی پڑیں۔

Published: undefined

ریپسٹ جانتے ہیں کہ ستر فیصد کیسز خاندانی عزت اور بدنامی کے خوف سے رپورٹ ہی نہیں ہوں گے۔ اور جن خواتین نے تھانے جا کے پرچہ کٹوانے کی زحمت کی انہیں سب سے پہلے تھانے والوں کی مشکوک و معنی خیز نگاہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر عدالتی کٹہرے میں وکلا کے سوالاتی ہتھیاروں سے ان کی بچی کچھی زخمی انا تار تار ہو گی اور پھر ہر جانب سے اتنا دباؤ ڈالا جائے گا کہ یا تو وہ مجرم کو اللہ کے نام پر معاف کر دیں یا پھر دھمکیوں سے گھبرا کے مقدمہ ہی واپس لے لیں۔ انصاف مل بھی گیا تو بس اتنا ہی ملے گا جتنا مختار مائی کے حصے میں آیا۔

Published: undefined

ویسے کسی بھی ریپسٹ کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب آخری مجرم بھی وہی ٹھہرے گا جس کا ریپ ہوا ہو۔ اور یہ فردِ جرم کسی عام آدمی کی جانب سے نہیں بلکہ اعلی ترین عہدیداروں کی جانب سے عائد ہوتی ہے۔ کیا یاد نہیں جب مختار مائی کا کیس بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی زینت بنا تھا تو صدر مملکت ( پرویز مشرف ) نے ہی کہا تھا کہ بعض خواتین مغربی ممالک کا ویزا لینے کے لیے بھی ریپ کروا لیتی ہیں۔

Published: undefined

جب سوئی میں شازیہ ریپ کیس سامنے آیا تو ایک ملزم کیپٹن حماد کی بے گناہی کی گواہی کسی بھی عدالتی تحقیق سے پہلے کس نے دی؟ جب اکبر بگٹی نے اس بے گناہی کو چیلنج کیا تو بگٹی صاحب کے ساتھ پرویز مشرف نے کیا کیا اور اس کے بعد بلوچستان کے ساتھ کیا ہوا۔

Published: undefined

اور خواتین کے پہناوے کو ریپ کی دعوت دینے کا سبب بھی تو ہمارے ہی ایک وزیرِ اعظم عمران خان نے بتایا تھا۔ اگرچہ ان سب معزز رہنماؤں نے دباؤ پڑنے پر اپنے الفاظ واپس لے لیے یا ذرائع ابلاغ کو اپنا بیان توڑنے مروڑنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ مگر کیا الفاظ واپس لینے سے خیالات بھی بدل جاتے ہیں؟ نہ صرف ہماری اشرافیہ بلکہ پڑھی لکھی مڈل کلاس کی اکثر خواتین بھی ایک بات پر تو متفق ہیں، ''کیا ضرورت ہے ان عورتوں کو ایسی جگہوں پر جانے کی جہاں وہ محفوظ نہیں۔‘‘

Published: undefined

اس ایک جملے میں گورنننس کی تمام غفلتیں دفن ہو جاتی ہیں۔ اور کیا چاہیے ریاست چلانے والوں کو اور رپیسٹس کو؟؟

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined