اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سربراہ آخم اسٹائنرکے مطابق یہ تنبیہ اس وقت کی گئی ہے جب اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے طالبان کے رہنماوں کے ساتھ اس امید میں مہینوں بات چیت کرتے رہے کہ انہیں خواتین کے حوالے سے سخت گیر موقف تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ طالبان حکام نے مقامی خواتین کو اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن چند ہفتے قبل انہوں نے خواتین کو اس بین الملکی تنظیم میں بھی کام کرنے پر پابندی عائد کردی۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کے افغانستان سے چلے جانے کا یہ اعلان ایسے وقت آیا ہے، جب سن 2023 میں ملک کی دو تہائی آبادی یا 28 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہو گی اور امریکی حکومت نیز جی سیون کے دیگر ارکان نے امداد میں تخفیف کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ تاہم طالبان نے اپنا موقف تبدیل کرنے سے انکار کردیا ہے، جس کا اعلان ان کے بظاہر جلا وطن رہنما ہیبت اللہ اخوند زادہ کے حکم پر کیا گیا تھا۔
Published: undefined
مقامی امدادی ایجنسیوں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد مجموعی تعداد کا تقریباً ایک تہائی ہے اور ان کے کام کرنے پرپابندی عائد کیے جانے کے خواتین کے لیے امداد پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ طالبان کے حکم کے بعد خواتین کی تعلیم تک بھی رسائی محدود ہو گئی ہے۔
Published: undefined
افغانستان میں اقوام متحدہ کے تحت 3300افغان ملازمت کرتے ہیں ان میں خواتین کی تعداد 600 ہے۔ لیکن یہ خواتین 12اپریل سے اپنے گھروں تک محدود ہیں جب طالبان نے حکم جاری کیا تھا کہ افغان خواتین اب اقوام متحدہ کے لیے بھی کام نہیں کریں گی۔ اس سے قبل انہوں نے دیگر غیر سرکاری تنظیموں میں خواتین کے کام کرنے پر روک لگادی تھی۔
Published: undefined
اسٹینر نے کہا کہ، "یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہم اس وقت جہاں ہیں وہاں سے اقوام متحدہ کے پورے نظام کو ایک قدم پیچھے ہٹانا ہوگا اور وہاں کام کرنے کی اپنی صلاحیت کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ لیکن یہ بنیادی اصولوں اور انسانی حقوق پر بات چیت کے متعلق نہیں ہے۔"
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا، "میرے خیال میں اس اندوہناک فیصلے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے، اگر میں تصور کروں کہ اگر اقوام متحدہ کا خاندان آج افغانستان میں موجود نہ ہو تو میرے سامنے لاکھوں نوجوان لڑکیوں، نوجوان لڑکوں، والدین، ماوں کی تصاویر ہوں گی، جن کے پاس کھانے کے لیے خاطر خواہ ضروری چیزیں نہیں ہوں گی۔"
Published: undefined
اقوام متحدہ نے مشرقی صوبے ننگرہار میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی عائد کرنے پر سخت تشویش کااظہار کیا تھا۔ اسٹینر نے کہا کہ اقوام متحدہ کی خواتین ملازمین پر اس ماہ مزید پابندیوں کا مطلب ہے کہ ایک بہت ہی بنیادی لمحہ قریب آرہا ہے۔ لیکن ہم اب بھی امید اور توقع کرتے ہیں کہ سمجھداری غالب آجائے گی۔
Published: undefined
انہوں نے طالبان کو متنبہ کیا کہ اگر اقوام متحدہ کی خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ افغانستان میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد طالبان نے اپنے سخت گیر قوانین میں نرمی برتنے کا اعلان کیا تھا لیکن انہوں نے جلد ہی ماضی کی طرف سخت پابندیاں عائد کردیں۔ عوام اور بالخصوص خواتین کو ان کی انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ حالانکہ ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے بارہا تنبیہ کی ہے کہ اس سے افغانستان کے ضرورت مند عوام تک انسانی امداد کی ترسیل میں پریشانی آئے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined