سماج

برلن کے سوئمنگ پولز میں اب ٹاپ لیس نہانے کی اجازت

جرمن دارلحکومت میں ٹاپ لیس نہانا سرکاری طور پر کبھی بھی ممنوع نہیں تھا۔ تاہم لَوٹے مِیس کیس شہ سرخیوں میں آنے کے بعد سوئمنگ پول کے منتظیمن نے کہا ہےکہ تمام اصناف کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جانا چاہیے

<div class="paragraphs"><p>علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس

 

جب لَوٹے مِیس گزشتہ دسمبر میں برلن کے علاقے کاؤلزڈورف میں ایک انڈور سوئمنگ پول میں ٹاپ لیس پہنچیں تو ان سے کہا گیا کہ یا تو اپنا سینہ ڈھانپ لیں یا پول چھوڑ دیں۔ تینتیس سالہ مِیس نے یہاں آنے سے قبل فون پر عملے سے معلوم کیا تھا کہ کیا وہ ٹاپ لیس آ سکتی ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن جب انہوں نےاپنا سینہ ڈھانپنے سے انکار کر دیا تو پولیس کو بلایا گیا اور مِیس کو وہاں سے جانے پر مجبور کر دیا گیا۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے میس نے کہا، "یہ میرے لیے اس دن بہت ذلت آمیز تھا اور یہ واقعی اچھا نہیں تھا کہ میری جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جائے اور میں اپنے لباس اور جسم کے بارے میں خود فیصلہ نہ کر سکوں۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا، ''میں نے اس کے بارے میں سوچا اور میں اس نتیجے پر پہنچی کہ نہیں، میں اب اپنی چھاتی پر شرمندہ نہیں ہونا چاہتی یہ حقیقت میں ٹھیک نہیں ہے۔ یہ صرف چھاتیوں کے بارے میں نہیں ہے، یہ مستقل جنسیت کا معاملہ ہے اور میں اسے مزید قبول نہیں کرنا چاہتی۔‘‘

Published: undefined

لَوٹے مِیس نے برلن میں قائم امتیازی قوانین کے انسداد کے لیے ذمہ دار محتسب کے دفتر میں شکایت درج کروائی۔ یہ مذکورہ قانون جون 2020 میں ریاست برلن میں متعارف کرایا گیا تھا اور یہ جرمنی میں اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے۔ 'جنرل ایکویل ٹریٹمنٹ ایکٹ‘، جو پورے جرمنی کا احاطہ کرتا ہے، لیبر اور سول قانون کے سیاق و سباق میں امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔ برلن کا انسداد امتیازی قانون اس موجودہ قانون کو عوامی شعبے میں بھی امتیازی سلوک سے بچانے تک کا احاطہ کرتا ہے۔

Published: undefined

دارالحکومت کے میونسپل سوئمنگ پول آپریٹر نے جنس کے اعتبار سے کوئی مخصوص ڈریس کوڈ نہیں بنا رکھا بلکہ ایک عمومی اصول ہے جس میں مرد و زن کو 'لازمی طور پر پیراکی کا لباس‘ پہننے کی بات کی گئی ہے۔ لباس کی اس تعریف نے یہ ہر سوئمنگ پول کے عملے پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ اس کا اصل مطلب کیا لیتے ہیں۔ اب میس کے معاملے پر عوامی احتجاج کے جواب میں پول آپریٹر نے ایک وضاحت جاری کی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ خواتین بھی مردوں کی طرح ہی عوامی سوئمنگ پول میں عریاں سینے کے ساتھ جا سکتی ہیں۔

Published: undefined

برلن والوں کے لیے مساوی حقوق

سوئمنگ پول منتظمین کی وضاحت صرف یہ بتاتی ہے،''ٹاپ لیس تیراکی تمام افراد کے لیے یکساں طور پر جائز‘‘ ہے اور صرف ''جنسی اعضاء‘‘ کا ڈھانپنا ضروری ہے۔ جرمن حکومت کی وفاقی انسدادِ امتیاز ایجنسی چھاتیوں، داڑھی اور جسم کے بالوں کی درجہ بندی ''ثانوی جنسی خصوصیات‘‘ کے طور پر کرتی ہے۔ بنیادی جنسی خصوصیات کو جنسی تولید کے لیے ضروری اعضا جیسے کہ عضو تناسل، خصیے اور اندام نہانی قرار دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

برلن میں انسداد امتیازی قانون کی تعمیل کے لیے ذمہ دار محتسب کے دفتر کی سربراہ ڈوریس لیبشر نے دارالحکومت میں قوانین کی وضاحت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ''برلن کے تمام باشندوں کے لیے مساوی حقوق قائم کرتا ہے، چاہے وہ مرد، عورت یا غیر تعین شدہ جنس سے ہوں۔‘‘

Published: undefined

جسم کا اوپری حصہ غیر جنسی بنانے کا مطالبہ

سن 2021 میں اسی طرح کے ایک اور کیس میں ایک اور خاتون کو سینہ برہنہ ہونے کی وجہ سے ایک واٹر پارک سے باہر نکالے جانے کے بعد برلن میں سرگرم کارکنوں نے 'ایکول بریسٹ فار آل‘ نامی پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی، جو جسم کے اوپری حصے کی غیر جنسیت کے لیے امریکہ میں 'فری دی نپل‘ مہم کی طرز پر کام کرتے ہیں۔

Published: undefined

''کوئی نپل آزاد نہیں ہے جب تک کہ تمام نپل آزاد نہیں ہوتے‘‘ کے نعرے کے تحت مہم چلانے والوں نے برلن میں ٹاپ لیس سائیکل چلاتے ہوئے ایک ایسے شہر میں خواتین کو ٹاپ لیس ہونے کا حق دینے سے انکار کرنے کی منافقت کے خلاف احتجاج کیا، جہاں اشتہارات سے ڈھکے ہوئے ''آدھے ننگے، جنسی اور غیر حقیقی جسموں کی تصاویر دکھائی گئی تھیں۔‘‘

Published: undefined

فری دی نپل مہم اسی نام کی فلم کی ریلیز کے بعد 2013 میں مرکزی دھارے میں آ گئی تھی۔ ہیش ٹیگ #freethenipple کا استعمال کرتے ہوئےیہ مہم چلانے والوں کا استدلال ہےکہ خواتین کو مردوں کی طرح عوامی سطح پر بے لباس نظر آنے کی اجازت ہونی چاہیے، بشمول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر، جہاں خواتین کے سینوں کی تصاویر کو باقاعدگی سے سنسر کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

جرمنی میں برہنہ نہانے کی روایت

جرمنی عریانیت کے بارے میں محتاط رویہ اپنانے کے لیے مشہور نہیں۔ مکمل طور پر برہنہ نہانے والوں کو ساحلوں، پارکوں اور یہاں تک کہ ملک کے انتہائی قدامت پسند حصوں میں سورج کی تمازت اپنے اندر سموتے دیکھا جا سکتا ہے۔ درحقیقت اس ملک میں ''فری باڈی کلچر‘ جسے عام طور پر ایف کے کے کہا جاتا ہے، کے حصے کے طور پر عریاں عوامی غسل کی ایک طویل روایت ہے۔ یہ ایک فطرت پسند تحریک کے زیر اثر انیسویں صدی کے آخر میں ابھری تھی۔

Published: undefined

سن 2017 میں پلے بوائے میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں سابقہ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کی پارٹی کے ممتاز سیاستدان گریگور گیسی نے بھی اس روایت کے زوال کے بارے میں شکایت کی، جس کا الزام انہوں نے مغربی مردوں کی 'فحش نگاہوں‘ پر عائد کیا تھا۔

Published: undefined

چونکہ برلن کے میونسپل پول آپریٹر نے لَوٹے مِیس کیس میں ٹاپ لیس نہانے کے بارے میں اپنے قوانین واضح کرنے کا اعلان کیا ہے، اس لیے مِیس کو آن لائن ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا، جس میں ان کے ظاہری حلیے، شکل کے بارے میں تضحیک آمیز تبصروں سے لے کر ریپ کیے جانے کی دھمکیاں تک دی گئیں۔ مبصرین کے مطابق جب امتیازی سلوک کے خلاف قانون سازی پر عمل درآمد کی بات آتی ہے تو اس معاملے میں جرمنی اب بھی دیگر یورپی ممالک سے پیچھے ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined