سماج

جرمنی: دائیں بازو کی انتہا پسندی اور جمہوریت دشمنی میں اضافہ

جرمن معاشرے کی نبض کیا کہتی ہے؟ فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن اپنے طویل المدتی مطالعہ کے ساتھ اس سوال پر قریبی نظر رکھتی ہے۔ اس کے تازہ ترین نتائج نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

جرمنی: دائیں بازو کی انتہا پسندی اور جمہوریت دشمنی میں اضافہ
جرمنی: دائیں بازو کی انتہا پسندی اور جمہوریت دشمنی میں اضافہ 

جرمنی میں ہر بارہ میں سے ایک شخص دائیں بازو کے انتہا پسند نظریے کا حامل ہے۔ یہ بات بیلے فیلڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم کی جانب سے فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ فاؤنڈیش سیاسی طور پر جرمنی کی بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہے۔

Published: undefined

جرمن معاشرے کا نمائندہ مطالعہ 2002 میں شروع ہونے کے بعد سے ہر دو سال بعد کیا جاتا ہے۔ جنوری اور فروری 2023 کے تازہ ترین سروے میں 18 سے 90 سال کی عمر کے تقریبا دو ہزار افراد نے حصہ لیا۔ محققین کے مطابق اس بار آٹھ فیصد جواب دہندگان واضح طور پر دائیں بازو کی انتہا پسندانہ رجحان رکھتے ہیں۔ گزشتہ مطالعات میں یہ تعداد صرف دو تا تین فیصد رہتی رہی ہے۔

Published: undefined

جرمنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد آمریت کی حامی

اس وقت تمام عمر کے افراد میں سے پانچ تا سات فیصد افراد آمریت کی حمایت کرتے ہیں، ایسی آمریت جس میں واحد مضبوط جماعت اور ایک رہنما جرمنی میں حکمرانی کر رہا ہو۔ یہ نتیجہ طویل مدتی اوسط سے دوگنا ہے۔

Published: undefined

بیلے فیلڈ یونیورسٹی میں 'انسٹی ٹیوٹ فار انٹر ڈسپلنری ریسرچ آن کنفلکٹ اینڈ وائلنس‘ کے سربراہ آندریاس زیک کی سربراہی میں تین محققین نے اس تحقیق کو 'دی ڈسٹینڈ مین اسٹریم' کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ زیک نے نشاندہی کی کہ لوگ جتنا کم پیسہ کماتے ہیں، ان کا دائیں بازو کا انتہا پسندانہ رویہ اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔

Published: undefined

انہوں نے کہا، ''ملک تیزی سے قومی بحرانوں کی لپیٹ میں آ رہا ہے۔ اور یہ لوگوں کو اس وقت زیادہ شدت سے متاثر کرتے ہیں جب وہ کم دولت مند ہوتے ہیں۔ سروے میں شامل افراد میں سے 48 فیصد نے خود کو بحرانوں سے ذاتی طور پر متاثر دیکھا جبکہ ایسی رائے رکھنے والے درمیانی آمدنی والے افراد میں سے 27.5 فیصد اور زیادہ آمدنی والے افراد میں سے صرف 14.5 فیصد تھے۔‘‘

Published: undefined

جرمنوں کا حکومت پر اعتماد کم ہو رہا ہے

یہ نتیجہ واضح طور پر حکومتی اداروں اور جمہوریت پر اعتماد کم ہونے کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے، باوجود اس کے کہ ایک قابل ذکر اکثریت اس طرز حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم، کم از کم 38 فیصد افراد سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں، 33 فیصد عوامیت پسند خیالات رکھتے ہیں اور 29 فیصد نسلی قوم پرستی، آمرانہ اور باغیانہ سوچ پر مبنی رویے رکھتے ہیں۔

Published: undefined

یہ سال 2020 اور 2021 میں کورونا وبا کے دوران کیے گئے سروے کے مقابلے میں تقریبا ایک تہائی کا اوسط اضافہ ہے۔ روایتی میڈیا کے بارے میں شکوک و شبہات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سروے میں شامل 32 فیصد افراد کا خیال ہے کہ میڈیا سیاست دانوں کے ساتھ ملی بھگت کر رہا ہے، جبکہ دو سال پہلے یہ شرح 24 فیصد تھی۔

Published: undefined

کیا جمہوریت خطرے میں ہے؟

لوگ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ایسی پیشرفتوں کو کس طرح روکا جا سکتا ہے اور ان کا رخ کیسے موڑا جا سکتا ہے۔ محقق زیک نے نشاندہی کی کہ ہم ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جہاں بہتر فلاحی پالیسیاں صرف جزوی طور پر تنازعات، عدم اطمینان اور احتجاجوں کا حل فراہم کر پا رہی ہیں۔

Published: undefined

زیک نے بتایا، ''بحران کا وقت وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ سیاسی طور پر متحرک ہو جاتے ہیں اور نئے خیالات اپناتے ہیں، اور یہ خیالات مرکز سے دائیں طرف کے ہوتے ہیں۔ جب مرکزی دھارے یا مرکز میں ایسے لوگ، جو خود کو دائیں بازو کا انتہا پسند نہیں سمجھتے یا اس طرح منظم نہیں ہوتے، معاشرے کے دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‘‘

Published: undefined

سازشی نظریات اور جمہوریت مخالف گروہ میں اضافہ کورونا وبا کے باعث

زیک نے 2022 کے لائپزگ یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس رجحان کا اندازہ لگانا کتنا مشکل ہے۔ اس تحقیق کے مطابق کورنا وبا کے دوسرے سال میں دائیں بازو کے انتہا پسندانہ رویوں میں کمی آئی۔ تاہم اس کے باوجود جمہوریت کے بارے میں عدم اطمینان بہت زیادہ تھا اور بہت سے غلط تعصبات وسیع پیمانے پر موجود تھے۔

Published: undefined

زیک نے اس دوران 'رائش برگر گروہوں‘ کے یکجا ہونے کے بارے میں کہا، ''آج ہم جانتے ہیں کہ کتنے دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے دیگر دائیں بازو کے بنیاد پرست، سازشی اور جمہوریت مخالف گروہوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کی۔‘‘ اس تحریک کے حامیوں کا خیال ہے کہ 1871 سے شروع ہونے والی جرمن سلطنت کی سرحدیں اب بھی نافذ العمل ہیں اور وہ موجودہ جرمن ریاست اور اس کے جمہوری ڈھانچے کو مسترد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان گروہوں نے دہشت گرد سیل بھی بنا رکھے ہیں۔

Published: undefined

'نیشنل سوشلزم معاشرے کے مرکز میں‘

اسی پس منظر میں زیک اس مطالعے کو جرمنی میں 'یاد داشت کی ثقافت‘ کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں براہ راست 1933-1945 کی نازی آمریت کا حوالہ ہے۔ انہوں نے کہا، "نیشنل سوشلزم معاشرے کے مرکز سے آیا تھا اور اس کی حمایت کی گئی تھی، بھلے ہی فسطائی معاشرے کے نظریے اور نفاذ بشمول پروپیگنڈا، تحریک اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو نازی جماعت نے تیار اور نافذ کیا تھا۔‘‘

Published: undefined

حالیہ مطالعے میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ معاشرے کو ان بہت سے بحرانوں سے کیسے نمٹنا چاہیے جن کا اسے سامنا ہے۔ جواب میں 53 فیصد نے زیادہ قومی پالیسیاں اختیار کرنے کی حمایت کی۔ انہوں نے بیرونی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کا مطالبہ کیا اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے جرمن اقدار، خوبیوں اور فرائض کو ضروری قرار دیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined