سماج

فرودس عاشق اعوان کا تھپٹر اور سیاسی ٹاک شوز کا کردار

اپنے مخصوص انداز گفتگو کے لیے مشہور مشیر اطلاعات برائے وزیر اعلی پنجاب فردوس عاشق اعوان ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہیں۔ تنقید کا سبب ان کا وہ تھپڑ ہے، جو انہوں نے رکن قومی اسمبلی کو رسید کیا۔

فرودس عاشق اعوان کا تھپٹر اور سیاسی ٹاک شوز کا کردار
فرودس عاشق اعوان کا تھپٹر اور سیاسی ٹاک شوز کا کردار 

ملک کے کئی حلقوں نے نہ صرف فردوس عاشق اعوان کے اس رویے کی مذمت کی ہے بلکہ وہ پاکستانی میڈیا کے سیاسی ٹاک شوز کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، جس میں میزبان مبینہ طور پر اس طرح کی لڑائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ریٹنگ کے چکر میں کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ کئی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی ہو رہا ہے کہ میڈیا کے ضابطہ اخلاق کو سختی سے نافذ کیا جائے اور ایسے میزبانوں اور مہمانوں پر عبوری پابندی لگائی جائے، جو اس طرح کی لڑائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

Published: undefined

تنازعات کی تاریخ

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ فردوس عاشق اعوان اپنی سخت مزاجی کی وجہ سے پاکستان کے کئی حلقوں میں مشہور ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ انہوں نے مبینہ طور پر 'جارحانہ رویے‘ کا مظاہرہ کیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی انہوں نے ایک خاتون بیوروکریٹ سے سرعام تلخ کلامی کی تھی اور کچھ برسوں پہلے انہوں نے سابق رکن قومی اسمبلی کشمالہ طارق کے خلاف بھی ایک ٹاک شو میں قابل اعتراض الفاظ کا استعمال کیا تھا۔

Published: undefined

ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کا مطالبہ

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے فردوس عاشق اعوان کے اس رویے کی مذمت کی ہے اور تنظیم نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ میزبان مہمانوں کو بلانے سے پہلے انہیں ضابطہ اخلاق سے آگاہ نہیں کرتے۔ یونین کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے مہمانوں پر عبوری پابندی لگانی چاہیے۔ اس کے علاوہ ایسے میزبان، جو تواتر کے ساتھ اس طرح کے جھگڑوں کی حوصلہ افزائی کریں، ان پر بھی عبوری پابندی لگنی چاہیے۔ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کو سختی سے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانا چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف سیاستدانوں کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ اس سے میڈیا پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں اور لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ میڈیا والے اس طرح کے جھگڑوں کو ہوا دیتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

فردوس عاشق اعوان کی وضاحت

فردوس عاشق اعوان نے اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اپنے ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قادر مندوخیل نے ان کے اور ان کے والد کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کی تھی اور یہ کہ ویڈیو کلپ میں ان نازیبا الفاظ کو نہیں دکھایا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے قانونی مشیروں سے اس حوالے سے مشورہ کر رہی ہیں۔ تاہم پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی قادر مندوخیل نے ان الزامات کو غلط قرار دیا اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسی زبان استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''فردوس عاشق اعوان اگر معافی مانگ لیں، تو وہ معاف کر دیں گے تاہم قانونی کارروائی کی دھمکی ان کی ہٹ دھرمی کی عکاس ہے۔‘‘

Published: undefined

میڈیا مالکان کی ذمہ داری

معروف تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاالدین کا کہنا ہے کہ میڈیا مالکان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے رویے کو قابو کریں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میڈیا مالکان کسی پروگرام کے شروع میں یہ دکھا کر کہ اس کے مواد سے ادارے کا کوئی تعلق نہیں جان نہیں چھڑا سکتے۔ اگر ان کے چینل میں کوئی ایسی چیز آ رہی ہے، جو قابل اعتراض ہے تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں اور انہیں ذمہ داری سے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیے کیوں کہ ٹی وی چینلز میں جو کچھ آرہا ہے اس میں مالکان کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ لہذا انہیں اس طرح کے مواد کی ذمہ داری لینی چاہیے اور اصلاح کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

سنسنی خیزی ضروری نہیں

ضیاء الدین کا مزید کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ کے پروگرام میں سنسنی خیزی ہو تو جب ہی آپ کے پروگرام کو لوگ دیکھیں گے، ''پاکستان میں کئی اینکرز ایسے ہیں، جو اپنے پروگرام کی پوری تشکیل خود کرتے ہیں، اس کی تیاری خود کرتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں اور عوام تک سنجیدہ موضوعات لے کے آتے ہیں۔ تو یہ کہنا غلط ہے کہ لوگ سنسنی خیزی یا مرچ مسالہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت لوگ سنجیدہ چیزیں بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ میزبانوں پر منحصر ہے کہ وہ ان سنجیدہ موضوعات کو عوام الناس تک کس طرح پہنچاتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری

کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنماؤں نے اپنے کارکنان اور عہدے داروں کی تربیت کو چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے ایسے لوگ سیاسی سطح پر اوپر آجاتے ہیں، جن کے پاس اظہار کا سلیقہ نہیں ہوتا۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو فردوس عاشق اعوان کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر سیاسی قیادت اپنے عہدے داروں کی باز پرس نہیں کرے گی یا ان کا احتساب نہیں کرے گی تو اس سے ان کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچے گا کیونکہ سیاست دان عوام میں جائیداد کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ ہر وقت عوام کی نظر میں ہوتے ہیں۔ لہذا وہ جب کوئی غلط کام کرتے ہیں تو اس سے وہ اور جماعت دونوں بدنام ہوتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں سیاسی کارکنان کی تربیت ہوتی تھی اور اس بات کا بہت خیال رکھا جاتا تھا کہ کسی بھی جماعت کے، جو لوگ میڈیا میں جارہے ہیں، ان کا انداز گفتگو کس طرح کا ہے، ان کی سیاسی تربیت کا کیا درجہ ہے اور ان کی ذاتی مطالعہ کس نوعیت کا ہے، '' اب تو سیاسی جماعتوں میں ہجوم آتا ہے جو الیکشن کے وقت نمودار ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔‘‘

Published: undefined

سینیٹر محمد اکرم کے مطابق اب سیاسی کارکنوں کو اپنی سیاسی تربیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی تربیت کریں تاکہ ان کی جگ ہنسائی نہ ہو۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined