چینی شہر ووہان میں پھوٹنے والی کورونا وائرس کی وبا اب تک نہ صرف چین کے کئی علاقوں میں بلکہ دنیا کے 30 سے زائد ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔
Published: undefined
چینی حکومت نے صوبے ہوبے کو گزشتہ کئی ہفتوں سے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ وہاں سے نہ تو لوگوں کو نکلنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کوئی وہاں جا سکتا ہے۔
Published: undefined
اس چینی صوبے کی کئی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طلبہ بھی کافی بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد زیادہ تر ممالک وہاں سے اپنے طلبہ اور شہریوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے نکال چکے ہیں۔ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر ووہان کے علاوہ صوبے ہوبے کے کئی دیگر شہروں میں بھی پاکستانی طلبہ کی کافی بڑی تعداد موجود ہے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے تاہم ابھی تک ایسے طلبہ کو متاثرہ چینی علاقوں سے نکالنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
Published: undefined
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کئی ویڈیوز میں صوبے ہوبے میں پھنسے پاکستانی طلبہ کی طرف سے وہاں موجود مسائل اور وطن واپسی کے سلسلے میں چین میں موجود پاکستانی سفارت خانے اور پاکستانی حکومت کی عدم دلچسپی سے متعلق شکایات سنی جا سکتی ہیں۔
Published: undefined
چین میں پھنسے ایسے طلبہ کے حوالے سے پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ چونکہ پاکستان کے پاس ایسی سہولیات اور ذرائع کی انتہائی کمی ہے، جو اس وبا پر قابو پانے کے لیے ضروری ہیں، اس لیے اگر یہ وائرس پاکستان پہنچ گیا اور وبائی شکل اختیار کر گیا، تو کافی زیادہ جانی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
Published: undefined
دوسری طرف ایسے طلبہ کے والدین شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ایسے ہی ایک طالب علم کے والد ارشد علی ابڑو نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کی طرف سے عدم توجہ پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ ان کا بیٹا میڈیکل کا طالب علم ہے اور چینی صوبے ہوبے کے شہر جِنگ ژو میں زیر تعلیم ہے۔
Published: undefined
ارشد علی ابڑو کے مطابق حالانکہ جِنگ ژو شہر ووہان سے تقریباﹰ ڈھائی سو کلومیٹر دور ہے مگر اب وہاں بھی یہ وائرس پہنچ چکا ہے اور اسی باعث یونیورسٹی اور شہری انتظامیہ نے طالب علموں کو اپنی یونیورسٹی تک ہی محدود رہنے کا حکم دیا ہے: ''اشیائے خورد و نوش کی کمی ہے مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کی نقل و حرکت کو اس قدر محدود کر دیا گیا ہے کہ ہفتے میں ایک بار پورے گروپ کے کسی ایک طالب علم کو باہر جا کر ضرورت کا سامان لانے کی اجازت ملتی ہے۔‘‘
Published: undefined
جِنگ ژو میں ہی موجود ایک پاکستانی طالب علم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے شہر میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ محمد شہیر نامی اس طالب علم کے مطابق کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں میں ایک پاکستانی طالب علم بھی شامل ہے۔ شہیر کے مطابق اس کیس کے بعد انہیں حکام کی جانب سے اپنے کمروں تک ہی محدود رہنے کی ہدایات دے دی گئی تھیں۔
Published: undefined
اسلام آباد حکومت نے اب تک چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طالب علموں کو واپس وطن لانے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے اور مستقبل قریب میں بھی ایسا ہونے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
Published: undefined
Published: undefined
چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلبہ کے والدین 19 فرووی کو اسلام آباد میں جمع ہوئے، جہاں حکومت نے انہیں اس سلسلے میں بات چیت کے لیے بلایا تھا۔
Published: undefined
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے صحت سے متعلقہ امور کے خصوصی معاون ڈاکٹر ظفر مرزا اور خصوصی مشیر زلفی بخاری اس ملاقات میں شریک ہوئے تاہم اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا۔ اس موقع پر ان والدین نے حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ حکومت پاکستانی طلبہ کو چین سے واپس لانے کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لے رہی ہے اور انہیں چین سے ایسے طالب علموں کی واپسی کے سلسلے میں نہ تو کسی لائحہ عمل سے آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔
Published: undefined
ارشد علی ابڑو کے مطابق نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت کے علاوہ کئی افریقی ملک بھی خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے طلبہ کو چین سے واپس لے جا چکے ہیں مگر پاکستان ابھی تک اس کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے خود اپنے خرچے پر بھی واپس آ سکتے ہیں مگر پاکستانی حکومت اس پر بھی تیار نہیں ہے۔ ابڑو نے کہا کہ ان طلبہ کو خصوصی پروازوں کے ذریعے پاکستان واپس لایا جائے اور انہیں احتیاطاﹰ کسی جگہ دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رکھا جائے تاکہ اگر کورونا وائرس کا کوئی خطرہ ہو بھی تو اس سے بچا جا سکے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر آپ ہمارے بچوں کو واپس نہیں لا سکتے تو کم از کم انہیں چین میں ہی کسی ایسی جگہ منتقل کیا جائے، جہاں ان کے اس خطرناک وائرس سے متاثر ہونے کا امکان نہ ہو۔‘‘
Published: undefined
ارشد علی ابڑو نے اپنی گفتگو میں یہ بھی پوچھا کہ آیا پاکستانی حکومت اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ روشن قومی مستقبل کی خاطر اعلیٰ تعلیم کے لیے چین جانے والے یہ پاکستانی طلبا و طالبات اس مہلک وائرس کا شکار ہو جائیں؟ انہوں نے کہا، ''اگر حکومت نے مناسب اقدامات نہ کیے تو پھر والدین احتجاج کا راستہ اپنائیں گے کیونکہ وہ حکومت کی طرح اپنے بچوں کو لاوارثوں جیسا نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محمد تسلیم
تصویر: سوشل میڈیا