سماج

‘چین میں رکنے کا فیصلہ درست تھا‘ووہان کے پاکستانی طلباء

جب چینی شہر ووہان میں کورونا کی وبا پھیلی تو وہاں اور دیگر چینی علاقوں میں مقیم پاکستانی طالب علموں نے وطن واپسی کی بھرپور مہم چلائی، تاہم ووہان میں لاک ڈاؤن کے جاتمے کے بعد اب ان کی رائے بدل گئی ہے۔

'چین میں رکنے کا فیصلہ درست تھا‘ووہان کے پاکستانی طلباء
'چین میں رکنے کا فیصلہ درست تھا‘ووہان کے پاکستانی طلباء 

واضح رہے کہ جب چینی شہر ووہان کورونا وائرس کا مرکز بنا تو نہ صرف وہاں رہنے والے طلبا پاکستان واپسی کے لیے بے چین ہوگئے بلکہ چین کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے پاکستانی طلباء اور عام شہریوں نے اپنے ملک کا رخ کیا۔ تاہم پاکستانی حکام نے وہاں سے پاکستانی طلباء کو واپس لانے سے انکار کر دیا، جس پر ان طلباء کے والدین نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکٹایا لیکن حکومت نے یہ موقف اپنایا کہ ان کو واپس نہیں لایا جا سکتا۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو نے اس وقت ان طلباءکے تاثرات لیے تھے، جس میں سے کئی طلباء پاکستان واپس آنےکے لیے بے چین تھے لیکن اب ان کا خیال ہے کہ ان کا چین میں رہنا زیادہ بہتر ثابت ہوا اور وہ موجودہ حالات میں پاکستان واپس آنا نہیں چاہتے۔

Published: undefined

لیہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم ندیم بھٹی، جو وہاں کی ہوزونگ یونیوسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں سول انجنیئرنگ پڑھ رہے ہیں، کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ طالب علموں کا جذباتی فیصلہ تھا،’’میرے خیال میں ہم لوگ جذبات کے رو میں بہہ گئے تھے۔ ووہان کورونا کا عالمی مرکز بنا ہوا تھا اورہم سب پریشان تھے۔ جب کہ ہمارے والدین بھی پریشانی میں مبتلا تھے، تو ہم نے پاکستان واپس جانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا وہاں رکنے کا فیصلہ صحیح تھا کیونکہ پاکستان میں تو ٹیسٹنگ کٹس بھی مناسب تعداد میں نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں کے پاس پی پی ای بھی وافر مقدار میں موجود نہیں جبکہ حکومت سماجی فاصلے سے متعلق ضوابط کو بھی سختی سے نافذ نہیں کر پا رہی۔‘‘

Published: undefined

حالانکہ ووہان کرونا وائرس کا مرکز تھا لیکن اس کا خوف اتنا تھا کہ چین کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے پاکستانی طلباء بھی وطن واپسی کے لیے بے چین ہو گئے تھے اور ان میں سے کئی پاکستان واپس بھی آئے۔ انہی میں ایک حنا فاطمہ بھی تھیں، جو بیجنگ ٹیکنالوجی اینڈ بزنس یونیورسٹی میں فوڈز سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ کرونا کی وباء جب چین میں پھیلی تو انہوں پاکستان کا رخ کیا اور اب لاہور میں اپنےگھر میں لاک ڈاؤن میں وقت گزار رہی ہیں۔

Published: undefined

حنا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''میرا خیال ہے کہ چین میں معاملات ہم سے بہت بہتر تھے۔ یہاں تو سننے میں آ رہا ہے کہ جس کو یہ مرض لگ جائے، اس کو گھیسٹ کر لے جاتے ہیں۔ یہ خیال ہی نہیں کیا جاتا کہ وہ انسان ہے۔ پھر ڈاکٹروں کے پاس پی پی ای نہیں ہے۔ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ سماجی فاصلہ بھی ایسا نہیں ہے جیسا کہ چین میں تھا۔ یہاں آکر مجھے لگتا ہے کہ ہمارا وہ فیصلہ جذباتی تھا کیونکہ چین میں بہر حال سہولیات ہیں۔‘‘

Published: undefined

گلگت بلتستان کے علاقے نگر سے تعلق رکھنے والے طالب علم امجد حسین، جوووہان کی چائنا یونیورسٹی آف جیو سائنسزمیں زیر تعلیم ہیں، کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے دوستوں کو اس وقت بہت سمجھایا کہ وہ پاکستان جانے کا مطالبہ نہ کریں،’’لیکن وہ اتنے جذباتی ہورہے تھے کہ کچھ سننے کے لیے تیار نہ تھے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ اب خوش ہوں گے کہ انہوں نے یہ بحران کا وقت یہاں گزارا کیونکہ پاکستان میں کورونا کے حوالے سے سہولیات کا فقدان ہے جبکہ یہاں چینی حکومت نے ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا۔‘‘

تاہم کچھ طالب علموں کا خیال ہے ان کا مطالبہ ان حالات میں درست تھا۔ ہوزونگ یونیوسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کیمسٹری کے طالب علم شاہد جدون کا کہنا کہ یہ صرف جذبات کا معاملہ نہیں تھا بلکہ حالات اس وقت انتہائی پریشان کن تھے۔ انہوں نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اس وقت کورونا صرف چین میں تھا اور ووہان اس کا مرکز تھا تو لازمی بات ہے کہ ہمیں خوف تھا اور ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان ہمارے لیے محفوظ ہے لیکن اب پاکستان سمیت پوری دنیا میں یہ وائرس پھیل چکا ہے۔ ہم نے قرنطینہ میں ستر دن سے زائد گزار لیے ہیں۔ پاکستان جا کر ہمیں دوبارہ سے بند ہونا پڑے گا اور پھر وہاں سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ تو اب ہم ووہان میں ہی رکنا چاہیں گے گو کہ یہاں ابھی زندگی پوری طرح معمول پر نہیں آئی ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined