سماج

اسکولوں میں بچوں کو ذہنی مریض مت بنائیے!

وہ ویسے ہی سہما ہوا تھا، ہونٹوں پر پپڑی جمی ہوئی تھی، بلب کی روشنی میں اس کا رنگ مزید پیلا لگ رہا تھا، آنکھیں بُجھی بُجھی سی تھیں، کندھوں پر ایک وزنی بستہ تھا۔

اسکولوں میں بچوں کو ذہنی مریض مت بنائیے!
اسکولوں میں بچوں کو ذہنی مریض مت بنائیے! 

تھکاوٹ سے چور اس بچے نے مجھ سے ہلکا سا ہاتھ ملایا اور چپ کر کے چارپائی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے رشتہ داروں سے فوراً پوچھا کہ یہ عشاء کے وقت کہاں سے آ رہا ہے؟ بچے کی امی جی نے فوراً جواب دیا، ماشا اللہ ٹیوشن سے ابھی واپس آیا ہے، سارا دن پڑھتا ہے، کھیل کی طرف بھی کم ہی دھیان جاتا ہے، ماشا اللہ سے لائق ہے۔

Published: undefined

میں حیران ہوا کہ اس وقت ٹیوشن اور ابھی تیسری کلاس میں ہی ٹیوشن کیوں؟ یہی حال میں نے اپنے کئی دیگر رشتہ داروں کے گھر بھی دیکھا۔ صبح سویرے اٹھ کر قرآن سیکھنے جانا ہے، واپس آتے ہی اسکول جانا ہے، وہاں سے واپسی سے تھوڑی دیر بعد ہی ٹیوشن والی باجی کی طرف جانا ہے، مغرب کے وقت واپسی اور اس کے بعد پھر سے مزید پڑھنے کے لیے دباؤ۔ سبھی کو یہ فکر تھی کہ فلاں کا بیٹا یا بیٹی اتنے اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہے، ہمارا کیوں نہ ہو؟ تقریباً سبھی نے بس زیادہ نمبروں کو معیار بنا رکھا ہے۔

Published: undefined

میں نے دیکھا ہے کہ والدین کی اس خواہش کے پیچھے بچوں کے چہروں کی رونقیں اُجڑ چکی ہیں، وہ بچے کم اور اسٹریس کے مریض زیادہ لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہی حال سرکاری اور نجی اسکولوں کا ہے۔ وہاں بھی زیادہ سے زیادہ نمبروں کی ایک عجیب و غریب قسم کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی دن میں دس گھنٹے تعلیم دینے پر تلا ہوا ہے تو کوئی بارہ گھنٹے کی سروس فراہم کر رہا ہے۔ اس اسٹریس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بچے تھکاوٹ سے چور چور ہو چکے ہوتے ہیں، انہیں سر درد کا مسئلہ رہتا ہے، بھوک نہیں لگتی، سونے کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں، ان کی صحت متاثر ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر بچوں کی خوشیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

ہم مجموعی طور پر بچوں کے بچپن کو سرے سے ختم کرنے بلکہ قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ایک عجیب و غریب قسم کا کریز پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ ہمارے بچے کے نمبر سب سے اچھے آنے چاہئیں، وہ ہمیشہ پڑھائی کرتا نظر آنا چاہیے، اس کی پوزیشن پہلی آنی چاہیے۔ ہمیں علم ہی نہیں ہے کہ ہم اس کے پیچھے اپنے بچوں کا بچپن ختم کرتے جا رہے ہیں، ان کے کھیلنے اور ہنسنے کے مواقع چھین رہے ہیں، جس اسٹریس فُل زندگی کا آغاز ہم نے بڑے ہو کر کیا تھا، اس اسٹریس فل اور اپوائنٹ منٹس سے بھرپور زندگی کا آغاز آج کے بچے ابھی سے شروع کر چکے ہیں۔

Published: undefined

سوال یہ ہے کہ اگر بچہ پہلے نمبر پر نہیں آئے گا، زیادہ اچھے نمبر نہیں لے گا تو کیا ہو جائے گا؟ ہم کیوں فطرت کے اس قانون کو ماننا نہیں چاہتے کہ بچے ذہانت کے مختلف درجے لے کر پیدا ہوتے ہیں؟ ہم کیوں مناسب نمبر لینے والے اپنے بچوں کو آئیڈیل قرار نہیں دے سکتے؟

Published: undefined

دنیا میں زیادہ تر کامیاب لوگ اور مغربی ممالک میں والدین اپنے بچوں کو ایک متوازن زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ میں پچھلے دنوں علی بابا گروپ کے بانی جیک ما کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی ایک نصیحت پڑھ رہا تھا، جس میں وہ کہتے ہیں، ”میں نے اپنے بیٹے کو بتایا ہے کہ تمہیں اپنی کلاس میں پہلی تین پوزیشنیں حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن تمہارے بہت بُرے نتائج بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ صرف اسی طرح کے بچے کے پاس ہی باقی ہنر سیکھنے کا وقت بچتا ہے۔ ‘‘

Published: undefined

کچھ عرصہ پہلے بزنس اِنسائیڈر میں بل گیٹس اور ان کی اہلیہ کا ایک انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کے لیے بچوں کے گریڈ زیادہ اہم نہیں بلکہ اس سے اہم ان کے بچوں کی بہتر کردار سازی، تجسس اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی قوت ہے۔ انہوں نے بچوں کی پرورش میں 'لو اینڈ لاجک‘ تھیوری کے تحت کی ہے اور چودہ برس کی عمر تک اپنے بچوں کو موبائل فون سے دور رکھا ہے۔ پاکستان میں ہمارا نظام تعلیم بری طرح سے ناکام ہو رہا ہے۔ ہم وہ بچے ہی پیدا نہیں کر پا رہے، جن میں سوچنے، سمجھنے، چیزوں کو پرکھنے اور خود سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہو۔ ہم نے رٹا سسٹم پر اتنا زور دیا ہے کہ کنڈر گارٹن میں ہی بچوں کو دس دس کتابیں لگوا دیتے ہیں۔

Published: undefined

اب جرمنی میں ایک بچہ چھ سال کی عمر میں پہلی جماعت میں جاتا ہے اور اسے سے پہلے کم از کم دو یا تین سال اس کو کنڈر گارٹن میں رکھا جاتا ہے۔ اب اس بچے کو کنڈر گارٹن میں کوئی ایک کتاب بھی نہیں لگوائی جاتی۔ ان دو یا تین برسوں میں اسے صرف اپنے ارد گرد کا ماحول سمجھایا جاتا ہے، انہیں جنگلوں میں لے جایا جاتا ہے، کھیل ہی کھیل میں صفائی کے طریقوں سے لے کر سامان کو سنبھال کر رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے، انہیں اپنا بستر بچھانے، کپڑے بدلنے سے لے کر دانت صاف کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

Published: undefined

پرائمری اسکول تو کیا، میں جرمنی میں ہائی اسکول کے بچوں کو بھی اسکول سے واپس گھر آ کر بمشکل ایک گھنٹہ پڑھتے دیکھتا ہوں کیوں کہ اسکول کا زیادہ تر کام اسکول میں ہی ختم کروا دیا جاتا ہے۔ اسکول سے باہر کا زیادہ تر وقت بچوں کا اپنا وقت ہوتا ہے، وہ سوئمنگ کے لیے جاتے ہیں، فٹ بال کھیلتے ہیں، بیڈ منٹن ہے، ٹیبل ٹینس ہے، اس طرح کی درجنوں سرگرمیاں ہر بچے کی رسائی میں ہیں۔

Published: undefined

لیکن اب مڈل کلاس پاکستانی والدین بچے کے کھیل کود کی سرگرمیوں کو تو وقت کا ضیاع سمجھنا شروع ہو گئے ہیں حالانکہ ایسی سرگرمیوں کا بچوں کی نشو ونما اور مستقبل کی کامیابیوں میں اہم ترین کردار ہوتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو اچھے کردار اور متوازن شخصیات والے انسان پیدا کرنے چاہیے تھے لیکن وہ دن رات ایک کر کے زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ ناکامیوں سے انسان سیکھتا ہے، بچوں کو ناکامیوں سے سیکھنے دیں اور پھر آگے بڑھنے دیں۔ مغربی ممالک میں اگر بچہ ٹیوشن پڑھتا ہے تو استاد اسے اپنی کمزوری، اپنی ناکامی، اپنی بے عزتی سمجھتا ہے، ہمارے ہاں استاد خود کہتے ہیں کہ بچے کو میرے پاس ٹیوشن کے لیے بھیجا کریں، اسے اشد ضرورت ہے۔

Published: undefined

میں یہ نہیں کہتا کہ بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے مغربی ممالک مثالی ہیں، یہاں بھی بڑی جماعتوں میں کچھ مسائل شروع ہو جاتے ہیں، جن کا حل نکالا جانا ضروری ہے لیکن پاکستان کے مقابلے میں یہاں کے بچوں کو پھر بھی کم اسٹریس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چھوٹی کلاسوں میں عمومی طور پر بچوں کو ویک اینڈ اور دیگر چھٹیوں میں پر ہوم ورک نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے تاکہ وہ بلا کسی فکر کے کھیل کود سکھیں، ہفتے میں دو چھٹیاں لازمی ہیں، خوش رہنے کے مواقع زیادہ ہیں، پاکستان کی نسبت سکول میں رہنے کا دورانیہ کم ہے، ناورے اور سویڈن جیسے ممالک میں بچوں کو کتابوں کے بغیر پڑھانے کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ پڑھانے کے طریقے سائنسی بنیادوں پر ہیں، اسکولوں میں سوئمنگ، موسیقی اور کھیلوں کا باقاعدہ انعقاد لازمی ہے۔ پاکستان میں ایلیٹ اسکولوں کے علاوہ ایسی سرگرمیاں انتہائی محدود ہو چکی ہیں۔

Published: undefined

پاکستان حکومت کو کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے، جس کے تحت پرائمری تک کے بچوں کا سلیبس محدود کیا جا سکے۔ بچوں کو اسکول کے علاوہ کھیلنے کودنے اور دیگر سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کا وقت مل سکے۔ چھٹی سے میٹرک تک بچوں کو ہر سال ایک یا دو ہفتے کسی، دوکان، ریستوران، دفتر یا کسی دوسری جگہ تربیت دی جائے تاکہ اسے علم ہو کہ عملی زندگی کے کیا مسائل ہیں؟ ہمارے ہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں چوبیس چوبیس برس کے ہو جاتے ہیں لیکن انہوں نے زندگی میں ایک دن کہیں باقاعدہ ملازمت نہیں کی ہوتی۔ اسکولوں کی سطح پر بچوں کو ملازمت کی بجائے اپنا کاروبار کرنے کے کورسز کروائے جائیں تاکہ ان کے اذہان میں نئے آئیڈیاز، نئے خیالات پیدا ہوں۔

Published: undefined

اور اگر اسکولوں یا حکومتی سطح پر ایسا نہیں ہوتا تو والدین کو یہ علم ہونا چاہیے کہ انہوں نے بچوں کو دس سال کی عمر میں ہی آئن سٹائن یا سائنسدان نہیں بنانا۔ انہیں اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیے کہ ہمیں تمہاری دن رات کی پڑھائی اور زیادہ سے زیادہ نمبر نہیں چاہییں بلکہ تمہارا صحت مند ہونا ضروری ہے، تمہارا مثبت کردار زیادہ ضروری ہے۔ بچوں کو ایک اچھا طالب علم ہی نہیں ایک اچھا اور ہنستا مسکراتا انسان بھی ہونا چاہیے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined