سماج

انگلیاں فگار اپنی

قالین بافی کے مراکز میں آنے والے بیشتر بچوں کے مسائل ایک سے ہیں۔ یہ بچے اپنا بچپن قالین بافی سیکھ کر آنے والے اچھے دنوں کی امید پر نچھاور کر رہے ہیں۔

انگلیاں فگار اپنی
انگلیاں فگار اپنی 

نومبر کے وسط میں موسم سرما کی پہلی بارش ہی کوئٹہ کے درجہ حرارت کو گرا دیتی ہے، جس کی وجہ سے سردی کی شدت میں ایک دم اضافہ ہوجاتا ہے۔ بلوچستان کی خشک سردیاں بڑی جان لیوا ہوتی ہیں۔ تیرہ سالہ آمنہ بی بی کو اس موسم میں قالین بُننے کے لیے صبح سویرے اٹھ کر قالین بافی کے مرکز جانا بہت بھاری پڑتا ہے۔

Published: undefined

آمنہ بی بی اپنے محلہ کی تین سہیلیوں سمیت کوئٹہ کی مشہور زمانہ سریاب روڈ کے عقب میں واقع ایک گنجان آبادی والے علاقے کی رہائشی ہے، جہاں روزوشب غربت، عسرت اور جہالت کا تماشہ جاری رہتا ہے۔ غربت کی دلدل میں دھنسے ہونے کے باوجود خاندان کے مرد حضرات کا دو تین شادیاں کرنا اور درجن بھر بچے کرنا کوئی اچھنبے کی بات ہی نہیں۔ وجہ ظاہر ہے شعور و ادراک کا ناپید ہونا، دقیانوسی اور فرسودہ روایات پر تفاخر کے ساتھ کاربند رہنا ہے۔

Published: undefined

ان سارے حالات میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ خواتین کا ہے۔ بےشک وہ بیوی، بہن، بیٹی یا ماں ہو۔ دوسرے قابل ترس وہ کم عمر بچے بچیاں ہیں جو پیدا تو کر دیے جاتے ہیں لیکن ان کا وجود تمام عمر ہونے نہ ہونے کے بیچ ہی معلق رہتا ہے حتی کہ اپنے گھر میں ہی ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

Published: undefined

بلوچستان کی صوبائی حکومت نے قالین بافی کی صنعت کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے اورکوئٹہ شہر کے گردونواح میں درجنوں قالین بافی کے مراکز قائم کیے ہیں۔ ہر مرکز میں باقاعدہ پانچ سے چھ افراد کا عملہ بھی بھرتی کیا گیا، جن میں قالین بافی کی دو اساتذہ بھی شامل ہیں۔ ان مراکز میں ایسے علاقوں کے بچے بچیوں کو قالین کی بُنائی سکھائی جاتی ہے، جو اسکول جانا تو دور کی بات، دو وقت پیٹ بھر کھانا کھانے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

Published: undefined

ان مراکز کا زنانہ اسٹاف ایسے بدحال خاندانوں کے گھر گھر جا کر انہیں اپنے بچوں کو، جو دن بھر گلی محلوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں، قالین بافی کے مراکز میں بھیجنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ اس ہنر کو سیکھ کر کم از کم اپنی کفالت کر سکیں۔

Published: undefined

آمنہ بی بی اپنے محلے کی دوستوں گل بخت، مہربانو اور سکینہ بلوچ کے ہمراہ روز اپنے مرکز میں صبح نو بجےموجود ہوتی ہے۔ تینوں بچیاں کم و بیش ہم عمر ہی ہیں سوائے گل بخت کے جو پچھلے چار سال سے اس مرکز میں قالین بافی کا فن سیکھ رہی ہے۔ وہ غالباً سولہ سال کی ہے اور اب اس کے ہاتھ بہت پھرتی سے بنائی کرتے ہیں اور اس کے کام میں نفاست واضح نظر آتی ہے۔ چاروں بچیوں نے کبھی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی نہ ہی وہ پڑھ لکھ سکتی ہیں۔ ان مراکز میں بیشتر بچے مکمل ان پڑھ ہیں۔

Published: undefined

عام طور پر اس عمر کی بچیوں کے چہرے کومل، جلد ملائم اور قد کاٹھ اٹھتا ہوا ہوتا ہے لیکن سخت اور مخدوش حالات نے ان بچیوں کے جسموں کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے اور چہروں پر بچپن کی شوخی کے بجائے ایک عجیب سی اداسی اور خاموشی نے لے لی ہے۔ ہماری ریاست کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو گی کہ اس ملک کے سب سے بڑے اور معدنیات سے مالامال صوبے کے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہونے کے بجائے ان کے ہاتھ قالین باندھنے پر مجبور ہیں۔ جن انگلیوں میں قلم ہوناچاہیے تھا وہ انگلیاں زخموں سے چور ہیں۔

Published: undefined

آمنہ بی بی ان سب میں چھوٹی ہے۔ اس کا اس مرکز میں پہلا سال ہے۔ سال کی پہلی خشک سردی میں اس کی ہاتھوں کی پتلی نازک انگلیاں فریم پر بندھے قالین کے تنے ہوئے دھاگوں کوکاٹتے ہوئے چھل کر زخمی ہو چکی ہیں اور خاص اس موسم میں آمنہ بی بی کی انگلیوں کے زخم خون رسنے کی وجہ سے زیادہ تکلیف کا باعث بن گئے ہیں۔ دیگر بچیاں چونکہ پہلے سے قالین بافی کر رہی ہیں تو وہ ایسے زخموں کو سہنے کی عادی ہو چکی ہیں یا شاید انہیں اندازہ ہے کہ اس تکلیف سے فرار ممکن نہیں۔ ہاتھ سے بُنے قالین کا کوئی ثانی نہ ہونے کے باوجود یہ صنعت اب روبہ زوال ہے۔ مشینی قالین سستے داموں میسر ہونے اور حکومت کی عدم توجہی اس صنعت سے وابستہ ہنرمندوں کے لیے لمحہ تشویش ہے۔

Published: undefined

آمنہ بی بی اور دیگر بچیوں سے ان کی اجرت کے بارے میں جب پوچھا گیا تو یہ جان کر شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑاکہ ایسے نفیس اور دیدہ زیب قالین جن کی بُنائی میں مہینے درکار اور انگلیاں زخمی کرنی پڑتی ہیں ایک ماہ کی محنت کا معاوضہ فقط دو ہزار روپے؟ ان دو ہزار روپے کو ذرا بائیس دن میں تقسیم کر کے دیکھیے۔ اس مہنگائی کے عفریت میں معصوم بچوں کو دی جانے والی اجرت صرف نوے روپے یومیہ ؟

Published: undefined

اور وہ بھی ماہانہ ادا نہیں کی جاتی بلکہ کبھی چھ ماہ بعد یا سال کے آخر میں یکمشت ادائیگی کی جاتی ہے۔ اسی بنا پر بچے بچیاں کچھ ہی عرصے بعد تنخواہ نہ ملنے پر مایوس ہو کر ان مراکز میں آنا ترک کر دیتے ہیں۔ بچیوں سے جب پوچھا کہ آپ حکومت سے کتنی تنخواہ کے طلبگار ہیں تو ساری بچیاں سنی ان سنی کرتے ہوئے سر جھکائےادھ بُنے قالین کو باندھنے میں ہی منہمک رہیں۔

Published: undefined

ان کی قالین بافی کی ایک استاد نے بتایا کہ بارہا ہم اساتذہ اور ان بچیوں نے انتظامیہ کو اپنی اجرت بڑھانے کی استدعا کی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ہر کچھ عرصے بعد بچے کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتے ہیں اور ہمیں پھر دوڑ دوڑ کر ان کے گھروں میں جاکر منتیں کرنی پڑتی ہیں کہ واپس مرکز آنا شروع کریں۔ قالین بافی کی استاد کو یہ روداد سناتے ہوئے بار سانس چڑھ جاتی اور کھانسی کا دورہ سا پڑ جاتا تھا۔

Published: undefined

استفسار پر اس نے بتایا کہ اسے سانس کی یہ بیماری کوئی دو سال پہلے لاحق ہوئی ہے اور ایسے سردی کے خشک موسم میں یہ کیفیت اتنی حاوی ہوجاتی ہے کہ اس کے حلق سے کئی کئی دنوں تک آواز نہیں نکل پاتی۔ ڈاکٹر کے مطابق اسے قالین بافی کی وجہ سے ہی دمے کا مرض لاحق ہوا ہے۔

Published: undefined

قالین کی بُنائی کے دوران ریشمی یا اونی دھاگوں یا سوت سے اڑتا رُواں اور ذرات فضا میں ہر طرف بکھرےنظر آتےہیں، جو سانس کے ذریعے وہاں پر موجود تمام کاریگر بچوں اور اساتذہ کے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر دمہ اورسانس کی بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے عملاً کوئی اقدامات ان مراکز میں نظر نہیں آتے حتی کہ دوران بُنائی کاریگر بچیوں اور عملہ کے چہروں پر ماسک تک موجود نہیں ہوتے۔

Published: undefined

قالین بافی کے کاریگر بچے بچیوں اور مراکز کے عملہ کو باقاعدہ آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ خصوصاً قالین کی بُنائی کے دوران تمام عملے اور کاریگروں کو ماسک پہننے پر سختی سے عمل کروانا ان کی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ قالین بافی میں مہارت کے لیے مسلسل چار سے پانچ سال لگ کر کام سیکھنا اور کرنا پڑتا ہے جس کے بعد ایک کاریگراس قابل ہوتا ہے کہ قالین بن سکے اور ایک سے دو ماہ کے عرصے میں قالین تیار کر پائے ورنہ ایک قالین بنانے میں کئی مہینے یا سال تک لگ جاتا ہے۔

Published: undefined

کم اجرت کی وجہ سے بچے جب کام چھوڑ دیتے ہیں تو مرکز کو کئی بار بند کرنا پڑ جاتا ہے۔ کورونا کی وبا نے بھی اس صنعت پر بڑے منفی اثرات مرتب کیے تھے۔ دو سال تمام مراکز بند رہے، جس سے عملہ اور کاریگر بچے بھی بیروزگار ہوئے اور مرکز میں رکھی مشینیں اور قالین باندھے کے لیے استعمال ہونے والے لوہے کے بنے فریم بھی زنگ آلود ہوگئے تھے۔ دو سوا دو سال بند رہنے کے بعد عملے کے پرزور اصرار پر حکومت نے ان مراکز کو ازسر نو دوبارہ بحال کیا۔ اب ان اداروں نے قالین بافی کے ساتھ آس پاس رہنے والی بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھانے کے لیے کلاسوں کا بھی انتظام کیا ہے، جو ایک اچھا قدم ہے لیکن حکومت کو ایسے اداروں میں قالین بافی یا سلائی کڑھائی کے کاریگر بچوں بچیوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے کابھی بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ہنر کے ساتھ ساتھ بچے کم از کم لکھنا پڑھنا بھی سیکھ سکیں۔

Published: undefined

حکومت کو اگر واقعی پاکستان میں قالین بافی کی صنعت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا مقصود ہے تو ایسے مراکز کا دائرہ مزید وسیع کرنا پڑے گا۔ مراکز کو جدید سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کاریگر بچوں کی اجرت میں اضافہ کرنا بے حد ضروری ہے ورنہ بچوں میں محنت کا صلہ نہ ملنے پر یہ ہنر سیکھنے میں دلچسپی نہیں رہے گے۔

Published: undefined

ہماری ریاست اور حکومتیں ان پچھتر سال میں ملک کے تقریباً ایک تہائی بچوں کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے تو کم از کم ایسے اداروں کے بجٹ کو ہی بڑھا دیں تاکہ کم از کم ان غریب بچوں کو ایک ہنر مند شہری تو بنایا جا سکے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined