سماج

کتنا بدل گیا ہے بھارت کا انسانی حقوق کمیشن

بھارت میں دیگر اداروں کی طرح انسانی حقوق کمیشن بھی تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ نو سالوں میں اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا ہے، اس کمیشن نے بھی نیند کی گولی کھا لی ہے۔

کتنا بدل گیا ہے بھارت کا انسانی حقوق کمیشن
کتنا بدل گیا ہے بھارت کا انسانی حقوق کمیشن 

تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح بھارت میں بھی انسانی حقوق پر آواز اٹھانا یا ان کا مطالبہ کرنا غیر سرکاری تنظیموں کا خاصہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر 1995ء میں اعلیٰ اختیاراتی قومی حقوق انسانی کمیشن کے قیام نے بھارت میں اس موضوع کو غیر سرکاری یا انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر یا ان کی سالانہ رپورٹوں سے نکال کر اس کو بطور ایک سنجیدہ ایشو متعارف کرایا۔

Published: undefined

مجھے یاد ہے 2002ء میں گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات نے دیگر امن پسند شہریوں کی طرح مجھے بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ سینیئر ساتھی کہتے تھے کہ فسادات تو ملک میں ہوتے ہی رہتے ہیں، اس میں نیا کچھ نہیں ہے؟

Published: undefined

1984ء میں تو اسی طرح کے فسادات میں سکھوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔ اس موقع پر ہمارے کئی رشتہ داروں نے جان بچانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے۔ مگر گجرات کے فسادات شاید پہلے فسادات تھے، جو ٹی وی یا دیگر میڈیا پر دکھائے گئے۔ لہذا میرا ان سے متاثر ہونا لازمی تھا۔

Published: undefined

بھارت میں فسادات کے ملزمان کو شاید ہی کبھی سزا ہوتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پولیس کے ایک سینیئر سابق افسر وبھوتی نارائین رائے، جنہوں نے اس موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ہے، کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پولیس اقلیتی فرقے کے تئیں متعصب ہوتی ہے۔ پھر یہ دونوں طرف کے افراد کی پکڑ دھکڑ کر کے ان کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ گجرات کے فسادات شاید واحد ایسے فسادات تھے، جہاں ملزمین کو عدالت نے سزائیں سنائیں۔ اس کا کریڈٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو جاتا ہے۔

Published: undefined

اسی طرح 2001ء میں جب صوبہ راجستھان کے دھول پور ضلع میں ایک لڑکی کے ساتھ ایک سال تک جنسی زیادتی کی گئی اور ملزم کو گرفتار بھی نہیں کیا گیا، تو قومی حقوق انسانی کمیشن یا این ایچ آر سی نے مداخلت کرتے ہوئے صوبہ کی پولیس کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا، جس سے نہ صرف ملزم گرفتار ہو گیا، بلکہ متاثرہ خاندان کو معاوضہ بھی ملا۔

Published: undefined

مگر بھارت میں جہاں دیگر اداروں کو زوال کا سامنا ہے، وہیں یہ ادارہ بھی تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ نو سالوں میں اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا ہے، لگتا ہے کہ اس کمیشن نے بھی نیند کی گولی کھا لی ہے۔

Published: undefined

2020ء میں، اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں، ایک دلت لڑکی کو اونچی ذات کے ہندو مردوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی لاش کو صوبے کی پولیس کی موجودگی میں آدھی رات کو کھیت میں جلا ڈالا۔ صوبائی حکومت سب کی نگاہوں کے سامنے ملزمان کو بچانے کی کوشش میں لگی رہی۔ مگراین ایچ آر سی نے بس ایک پوسٹ آفس کا کردار ادا کیا۔ شکایت کی خود چانچ کرنے کے بجائے، اس معاملے کو صوبے کی پولیس کے سپرد کر دیا۔ جہاں پولیس خود ہی ملزم تھی، وہ کیا تحقیق کرتی؟ متاثرہ خاندان آج تک انصاف کا منتظر ہے۔

Published: undefined

سماج میں ذات پات کی تقسیم، اعلیٰ ذاتوں کے دبدبے اور پولیس کے مظالم کے باوجود بھارت کے ادارے، جس میں عدلیہ، آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کمیشن شامل ہیں، مظلوموں کی داد رسی کرکے ان کے آنسو پونچھنے کا کام کرتے تھے۔ بین الاقوامی فورمز پر بھی جب بھارت کے حقوق انسانی کے ریکارڈ پر بحث ہوتی تھی، تو اس کے سفارت کار ملک کے ادراروں کا حوالہ دے کر فخر سے کہتے تھے کہ ان کے ملک میں داخلی احتساب اور داد رسی کا نظام خاصا مضبوط ہے اس لیے ان کو کسی بیرونی ادارے کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Published: undefined

مگر گزشتہ کئی برسوں سے یہ ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ عملی طور پر یہ حکومت کے غلام بن چکے ہیں۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کو تو ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے درجہ اول کی ایکریڈیٹیشن دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوشنز، جس کا بھارت بھی ایک ممبر ہے، کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کمیشن غیر فعال ہو چکا ہے۔

Published: undefined

بھارت کی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارہ کی توجہ اس طرف دلائی کہ جب ہندو قوم پرست کا ایک طاقتور طبقہ اعلانیہ مسلم فرقے کی تباہی اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کرکے اپنے پیرو کاروں کو ہتھیار اٹھانے پر اکساتا ہے، تو قومی انسانی حقوق کمیشن خاموش تماشائی بن کر بیٹھا دیکھتا رہتا ہے۔

Published: undefined

کمیشن کے چیئرپرسن اور دیگر ارکان کی تقرری کا عمل ویسے تو پہلے بھی حکومت ہی کرتی تھی، مگر چونکہ یہ ادارہ بین الاقوامی برادری میں ملک کو سبکی سے بچاتا آیا ہے، اس لیے غیر جانبدار بھاری بھر کم اشخاص کو ہی اس کا سربراہ اور ممبر بنایا جاتا تھا۔ مگر اب اس میں صرف منظور نظر چیئرمین لائے جاتے ہیں۔

Published: undefined

انسانی حقوق کے ماہر ہنری ٹیفاگنے جو پیپلز واچ نامی این جی او چلاتے ہیں، کہتے ہیں، ''این ایچ آر سی اب صرف ایک پوسٹ آفس کی طرح کام کرتا ہے، جہاں اسے متاثرہ افراد کی شکایات موصول ہوتی ہیں۔ ضروری کارروائی کرنے کے لیے وہ ان شکایات کو صوبے کی پولیس کو بھیجتا ہے۔آخر اب شکایت ہی اسی پولیس کے خلاف ہو، تو وہ کیسے اس کا انجام تک پہنچائیں گے؟ ان سے کس قسم کے انصاف کی امید رکھی جا سکتی ہے؟"

Published: undefined

تین دہائی قبل جب اس کمیشن کو بنایا جا رہا تھا، تو بھارت کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ سرکاری کمیشن لیپا پوتی کر کے حکومت کو الزامات سے بری کرنے کا کام کرے گا۔ اس کمیشن کا قیام ہی عالمی اداروں میں پنجاب اور کشمیر میں ہوئی انسانی حقوق کی زیادتیوں پر شدید تنقید کے بعد کیا گیا تھا۔ تاکہ عالمی برادری کو باور کرایا جا سکے کہ دار رسی کا انتظام ملک کے اندر ہی ہے۔

Published: undefined

ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے سربراہ روی نیر کہتے ہیں کہ این ایچ آر سی کے قیام کا پورا ڈیزائن غلط تھا۔ این ایچ آر سی کو خود مختار ادارہ بنانے کے بجائے، اسے وزارت داخلہ کے تحت رکھا گیا تھا، ''اس کا بجٹ، تقرریاں اور تفتیشی طریقہ کار سب یہی وزارت طے کرتی ہے۔ اس کی بنیاد ہی ایک بڑا فراڈ تھی۔"

Published: undefined

جو کچھ اس کمیشن کے ساتھ اب ہوا ہے، وہ کسی نہ کسی وقت تو ہونا ہی تھا۔ اب تک تو اس نے بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے غیر جانبداری کا جو ہوا کھڑا کیا ہوا تھا، اب وہ آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہا ہے۔ عالمی ایجنسیوں کو اب اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کا ادراک ہو چکا ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھارت کے لیے سبکی اور شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔مگر کیا کیا جائے، شرمندگی اور سبکی تو اب حکومتی افراد نے بھون کے کھائی ہے۔ ان کو بین الاقوامی سبکی نہ ہی اپنے عوام کے انسانی حقوق کی کوئی فکر ہے۔ اب ہم ناستک فلم میں کوی پردیپ کے اس گانے کو گنگنانے کے علاوہ کیا ہی کر سکتے ہیں۔

دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی ہے بھگوان

کتنا بدل گیا انسان

سورج نہ بدلا، چاند نہ بدلا،نا بدلا رے آسمان

کتنا بدل گیا انسان، کتنا بدل گیا انسان

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined