
دوستوں، اقرباء یا اہل خانہ سے ملاقات پر گلے ملنا اس لیے ایک عام سے بات ہے کہ یوں آپس کی قربت اور ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شناسا افراد سے ملاقات یا اجنبیوں سے تعارف کے وقت ہاتھ ملانا بھی عمومی سماجی رویوں کا حصہ ہے، جو دوطرفہ احترام کو ظاہر کرتا ہے۔
Published: undefined
لیکن مسئلہ کورونا وائرس سے لگنے والی بیماری کووِڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہوا، جو چین کے شہر ووہان سے شروع ہو کر اب تک دنیا کے تقریباﹰ 115 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے ایک عالمگیر وبا بھی قرار دی جا چکی ہے۔
Published: undefined
اس وائرس کے باعث اب تک متاثرہ ممالک میں چار ہزار سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد بھی تقریباﹰ سوا لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
Published: undefined
یہ وائرس چونکہ ہوا کے علاوہ ایک انسان سے دوسرے تک جسمانی قربت اور ہاتھ ملانے سے بھی منتقل ہو سکتا ہے، اس لیے دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ وائرس موجود ہے، وہاں گھر سے باہر کسی سے بھی گلے ملنا یا ہاتھ ملانا اب خطرناک ہو چکا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
انسان چونکہ اپنے طور پر کسی بھی مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتا ہے، اس لیے کورونا وائرس سے بچاؤ کی خواہش اور سماجی سطح پر خوش اخلاقی کے مظاہرے کی ضرورت کے تحت حل یہ نکالا گیا کہ بہت سے متاثرہ ممالک میں عام شہری اب گلے ملنے اور ہاتھ ملانے کے بجائے کہنیاں یا پھر پاؤں ملا کر ایک دوسرے سے ملنے لگے ہیں۔
Published: undefined
اس کا فائدہ یہ ہے کہ تہذیب اور خوش اخلاقی کا تقاضا اگر جسمانی حرکات کے ساتھ دوطرفہ احترام کا اظہار ہی ہے، تو ہاتھوں کی طرح کہنیاں اور پاؤں بھی تو جسم ہی کا حصہ ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یورپ میں ابھی تک لوگ سردیوں کے گرم کپڑے ہی پہن رہے ہیں اور جوتے تو ہر کسی نے پہنے ہی ہوتے ہیں، لہٰذا اس طرح کہنیاں یا پاؤں ملانے سے کورونا وائرس کے کسی ایک فرد سے دوسرے کو منتقل ہونے، یا فوری طور پر دوسرے فرد کے جسم تک پہنچ جانے کا امکان بہت ہی کم ہو جاتا ہے۔
Published: undefined
اس صورت حال کا ویسے ایک اور حل بھی ہے: یہ کہ ہاتھ، کہنیاں یا پاؤں، کچھ بھی نہ ملایا جائے اور عوامی مقامات پر لوگوں سے جسمانی قربت سے احتراز کرتے ہوئے فاصلہ رکھا جائے۔ رہا سلام دعا کا سوال اور آپس میں حال احوال پوچھنا، تو یہ کام تو زبانی بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ دنیا کا ہر ڈاکٹر یہی کہتا ہے کہ 'پرہیز علاج سے بہتر ہے‘۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined