سماج

جرمنی میں ملک گیر ہڑتال: کاروبار زندگی مفلوج

اتواراور پیر کی درمیانی شب سے شروع ہونے والی پبلک سیکٹرکی یہ ہڑتالیں بنیادی طور پر پبلک ٹرانسپورٹ پر مرکوز ہیں۔ جرمنی میں تقریباً تمام بسوں، ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کی آمدورفت کا سلسلہ بند رہا۔

جرمنی میں ملک گیر ہڑتال: کاروبار زندگی مفلوج
جرمنی میں ملک گیر ہڑتال: کاروبار زندگی مفلوج 

جرمنی میں پیر کی آدھی رات کو کئی ٹریڈ یونینوں کے زیر اہتمام ملک گیر انتباہی ہڑتال کا باضابطہ طور پر آغاز ہوا۔ اس ہڑتال کی تیاریوں نے پہلے ہی ہفتے گزشتہ ویک اینڈ پر معمولات زندگی میں بڑی رکاوٹیں پیدا کر دی تھیں اور پیر کے روز تقریباً تمام ہوائی جہاز، ٹرینیں اور بسیں نہیں چلی۔ یہ ہڑتال جرمنی میں ایک طویل عرصے سے جاری تنخواہ میں اضافے کے مطالبے کے تنازعے کا حصہ ہے۔

Published: undefined

ٹرانسپورٹ کے ذرائع کی اس ہڑتال کے نتیجے میں پیر کو سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے ٹریفک جام کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ عوام کو اپنے اپنے کاموں اور بچوں کو اسکولوں اور کالجوں میں وقت پر پہنچنے میں بہت زیادہ مشکلات اور ہر طرح کی سرگرمیوں میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Published: undefined

تمام پروازیں گراؤنڈ

دارالحکومت کے 'برلن برانڈن بُرگ ایئرپورٹ‘ کے سوا تقریباً تمام بڑے جرمن ہوائی اڈے ہڑتال سے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں، تقریباً 4 لاکھ مسافروں کو تاخیر یا منسوخی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوائی جہازوں کے سب سے بڑے مرکز، فرینکفرٹ میں، تمام آنے والی اور باہر جانے والی پروازیں پیر کو پورے دن کے لیے منسوخ کر دی گئیں۔ فرینکفرٹ ایئر کے تمام شالٹرز پر طویل فاصلے کی پروازوں کی پورے دن کی تاخیر کا بورڈ لگا دیا گیا۔

Published: undefined

اس دوران میونخ بین الاقوامی ہوائی اڈے نے ہڑتال اور اس کے اثرات کے پیش نظر اتوار کو پہلے ہی پروازیں روک دی تھیں۔ میونخ میں پیر کو بھی تمام مسافر پروازیں بند رہیں۔ محض برلن کا 'بی ای آر‘ ایئرپورٹ تھا جو ہڑتال سے متاثر نہیں ہوا۔ اس کی آمد اور روانگی کے آن لائن بورڈز پیر کی صبح سے ہی نسبتاً معمول کے مطابق لگ رہے تھے لیکن جرمنی میں اندرون ملک پروازیں ہڑتالوں کے سبب بند پڑی تھیں۔

Published: undefined

طویل فاصلے والی اور علاقائی ٹرینیں بھی متاثر

اس ہڑتال سے جرمنی کا ریل کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو گیا۔ ہڑتال نے طویل فاصلے والی ٹرینوں اور مقامی پبلک ٹرانسپورٹ سبھی متاثر ہوئے ہیں۔ ای وی جی یونین کے مطابق 30,000 سے زیادہ ریلوے ملازمین پیر کو ہڑتال میں شامل ہوئے۔

Published: undefined

ای وی جی مذاکراتی کمیٹی کے رکن کرسٹیان لوروخ نے کہا، ''ہڑتال پر آمادگی بہت زیادہ ہے، اور آجروں کی طرف سے روکے جانے پر کارکنوں میں غصہ بھی انتہا سے زیادہ ہے۔‘‘ ان کا کہننا تھا،''ہم آج ہڑتال کر رہے ہیں کیونکہ اجتماعی سودے بازی میں، بہت سے کارکنوں کے لیے سخت مالی حالات کے باوجود، ہمیں کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی گئی جو سنجیدہ مذاکرات کے لائق ہو۔‘‘

Published: undefined

قومی ریل آپریٹر 'ڈوئچے بان‘ نے پیر کے طے شدہ ملک گیر ہڑتال کے ضمن میں گزشتہ ہفتے ہی تمام طویل فاصلے طے کرنے والی ریل سروس کو بند کرنے کا غیر معمولی اعلان کر دیا تھا۔ جرمن ریلوے ادارہ ڈوئچے باہن اکثر ان خدمات کو ترجیح دینے کی کوشش کرتا ہے، جن کا تعلق کئی بین الاقوامی سرحدیں عبور کرنے والے سفر سے ہوتا ہے۔

Published: undefined

ڈوئچے باہن نے علاقائی ریل خدمات کو بھی بڑے پیمانے پر کم کرنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ عوامی تعطیل کے دنوں میں اور ہنگامی شیڈول پر کام کرنا بھی ممکن نہیں رہ جائے گا۔ پیر کی ہڑتال میں جرمن صوبے باڈن ووٹمبرگ، حسے، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا، رائن لینڈ پلاٹینیٹ، سکسنی اور بویریا کی مقامی پلک ٹرانسپورٹ جیسے کہ بسیں، ٹرام یا زیر زمین سروس کو بھی روک دیا گیا۔ اس کے نتیج۔ کیں سڑکوں پر غیر معمولی ٹریفک سے بھی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ زیادہ تر باشندوں کے پاس کار یا بائی سائیکل کا استعمال ہی اس وقت ممکن رہ گیا ہے۔

Published: undefined

مذاکرات کا تیسرا دور

جرمنی کی ٹریڈ یونیوں کی سب سے بڑی انجمن ورڈی جو رکنیت کے اعتبار سے ملک کی دوسری بڑی مزدور یونین ہے اور ای وی جی کی طرف سے اس ہڑتال میں مکمل ہم آہنگی کے مظاہرے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دونوں یونینوں کی اس ہفتے پبلک سیکٹر کے آجروں کے ساتھ بات چیت زیر التواء ہے۔ ورڈی کے معاملے میں، جرمن سول سروس فیڈریشن (DBB) یونین کے ساتھ وفاقی حکومت اور میونسپلٹیز کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کا ایک نیا دور پیر کو پوٹسڈیم میں شروع ہوا ہے۔

Published: undefined

ورڈی کے ترجمان فرانک ویرنیکے کے مطابق،''ٹرانسپورٹ سیکٹر میں ہڑتال کے ساتھ سااتھ آجروں پر ایک بار پھر یہ واضح کر دیا جانا چاہیے کہ ملازمین ہمارے مطالبات کے ساتھ پوری طرح متفق ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ ان ہڑتالوں کا سبب مزدور یونینوں کی طرف سے تنخواہوں میں ساڑھے دس فیصد اضافے کا مطالبہ ہے جسے حکومت ابھی تک ماننے سے انکار کر رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined