سماج

لیاری، جو کبھی یونان تھا اور اب بھی برازیل ہے

لیاری ایک لکیر ہے، جہاں سے کراچی شروع ہوتا ہے۔ لیاری کی انرجی پورے کراچی سے مختلف ہے بلکہ پورے پاکستان سے مختلف ہے، شاید پوری دنیا سے ہی مختلف ہے۔

لیاری، جو کبھی یونان تھا اور اب بھی برازیل ہے
لیاری، جو کبھی یونان تھا اور اب بھی برازیل ہے 

یہ زمین کی سگی اولاد ہیں اور ان کا علم بہت آرگینک ہے۔ پاکستان کی پچھتر سالہ معاشی، سیاسی، سماجی، ادبی، کاروباری یا مزاحمتی تاریخ کو سمجھنا ہو تو لیاری کی تاریخ پڑھ لینا کافی ہو گا۔ تاریخ کی درست سمت معلوم کرنی ہو تو پھر لیاری کو پڑھنا لازمی ہوگا۔

Published: undefined

لیاری کی تاریخ کو غیر ملکی مصنفین نے بھی خاصی اہمیت دی ہے مگر زمین کی اصل کہانی تو وہی ہوتی ہے، جو زمین کی اولاد لکھتی ہے۔ سب نے کہانیاں لکھی ہیں، رمضان بلوچ نے لیاری کی ان کہی کہانی لکھی ہے۔

Published: undefined

لیاری باشعور لوگوں کا بسایا ہوا چھوٹا سا ایک یونان تھا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ فیض احمد فیض کو جب دو کالجز میں سے کسی ایک کی پرنسپل شپ کی پیش کش ہوئی تو انہوں نے فورا سے پشتر لیاری کے عبداللہ ہارون کالج پر انگلی رکھی۔

Published: undefined

لیاری فیض کا شکر گزار ہے مگر لیاری کو فیض کی کچھ ایسی ضرورت نہیں تھی۔ علم و دانش میں لیاری کے لوگ خود مختار تھے۔ صبا حسن دشتیاری جیسے دانشور اور اساتذہ انہیں ایک دستک پہ میسر تھے۔ فیض کی آمد سے بھی بہت پہلے لیاری کے عام سے لوگ باقاعدہ بینر لگا کر ''بچیوں کو گھر سے نکالو، سکول بھیجو‘‘ مہم چلا رہے تھے۔

Published: undefined

آپا گل بی بی اور اور ملا جنت بی بی جیسی خواتین نادار بچیوں کو جدید تعلیم فراہم کر رہی تھیں۔ مخلوط نظام تعلیم ان کے لیے کوئی حیران کر دینے والا سوال نہیں تھا۔ لیاری کے ''بھائی لوگ‘‘ بھی آلتو فالتو پھرنے والے بچوں کی تعلیم کے لیے فکرمند ہوتے تھے۔ کوئی تو وجہ رہی ہو گی نا، جو دوسرے شہروں کے لوگ جان مار کر لیاری کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے آتے تھے۔

Published: undefined

پاکستان کے بڑے شہروں میں جب خواتین کے حقوق طے ہو رہے تھے، تب لیاری میں خواتین دکانیں چلا رہی تھیں۔ لیاری کی ''جھٹ پٹ مارکیٹ‘‘ میں کپڑے سے سبزی تک کی ہر دکان خواتین چلاتی تھیں۔ چھوٹے موٹے کاموں کے لیے انہوں نے مرد ملازم بھی رکھے ہوئے تھے۔ مرد بہت سہولت سے اس مارکیٹ میں خریداری کرتے تھے۔ یہ مارکیٹ اب بھی موجود ہے مگر اب یہ مردوں کے قبضہِ قدرت میں چلی گئی ہے۔

Published: undefined

لیاری کے ہوٹل بھی محض ہوٹل نہیں تھے۔ یہ علم و دانش کے گہوارے ہوتے تھے، جہاں کتاب اور آئیڈیاز پر بات ہوا کرتی تھی۔ پراگندہ حال مزدور یہاں چیخوف کے افسانے اور بورخیس کی کہانیاں سنتے سناتے تھے۔ یہاں بیٹھے ہوئے کوچوان اور خوانچہ فروش بھی مصرعوں میں بات کرتے تھے۔ محنت کش کانٹ اور ہیگل کے فلسفوں پر بات کرتے تھے۔ میر بخش بزنجو جیسے قدآور سیاسی لوگ انہی بانکڑوں پر سیاسی مکالموں کے لیے انہیں دستیاب ہوجاتے تھے۔

Published: undefined

یہی ہوٹل لیاری کے سنیما گھر بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ کوئی ایسی منفرد بات نہیں تھی۔ منفرد بات یہ تھی کہ انہی ہوٹلوں کے مالکان ممنوعہ فکری لٹریچر اور اچھی فلموں کی کیسٹیں فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے تھے۔ کچھ ہوٹلوں میں چھوٹے موٹے سٹوڈیو بھی بنے ہوئے تھے۔ یہ مالکان خود باذوق تھے، جو آرٹ اور لٹریچر کی شعوری طور پر آبیاری کرتے تھے۔

Published: undefined

اندازہ کریں کہ چاچا عبدالحق نے اپنے ہوٹل کا نام ہی ''آفتابِ موسیقی ہوٹل‘‘ رکھا ہوا تھا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ اس ہوٹل کی دیواریں کسی منظم آرٹ گیلری کا منظر پیش کرتی تھیں۔ اس کے کاونٹر سے پکے راگ سنائی دیتے تھے۔ سلیمانی ٹی شاپ کے مالک نور محمد کے ڈیزائن کیے ہوئے ثقافتی کپڑوں کی آرٹس کونسل میں نمائش ہوتی تھی۔ صدیق شیدی اپنے ڈھابے پہ خود کڑک چائے بھی بناتا تھا اور ڈھابے کے باہر ہی تھیٹر بھی چلاتا تھا۔ تھیٹر کا تو خیر لیاری میں پورا گروپ موجود تھا۔

Published: undefined

بچپن میں کہیں بھی وکٹ لگا کر ہم جس طرح کرکٹ شروع کر دیتے تھے، یہ گروپ کھڑے کھڑے کہیں بھی تھیٹر شروع کردیتا تھا۔ یہاں شادیوں تک میں سفید پردہ لگا کر فلم دکھانے اور تھیٹر سجانے کا رواج موجود تھا۔ یہاں کے پرانے بابوں کو شیکسپئیر، آغا حشر کاشمیری اور امتیاز علی تاج کے ڈراموں کے ڈائیلاگ اور کردار انہی تھیٹروں کے توسط سے یاد ہیں۔

Published: undefined

لیاری میں تو کلاسیکی موسیقی کو بھی شادیوں کا لازمی سا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ استاد بڑے غلام علی خان اور مہدی حسن خان یہاں کی شادیوں میں پوری پوری رات سماں باندھ چکے ہیں۔ لیاری کے اپنے موسیقار بھی بے حساب تھے۔ ان کے آرٹ میں ثقافت اور مزاحمت کے رنگ بہت گہرے تھے۔ یہ ایوب خان، یحییٰ خان اور پھر جنرل ضیا کے خلاف ساحر، جالب، فیض اور گل خان نصیر کی غزلیں گاتے ہوئے گزر گئے۔ آج بھی گئے وقتوں کے کچھ نشان وہاں باقی ہیں۔ اب ان کے اندھیرے کمروں میں اداسیاں بولتی ہیں۔ ان کے ہارمونیم خاموش خاموش سے ہیں مگر ضمیر بہت مطمئن ہیں۔

Published: undefined

لیاری کے جو لوگ ناخواندہ ہوتے تھے، جاہل وہ بھی نہیں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور کی ہر آواز کو لیاری نے اپنے میدانوں میں پناہ دی اور ہر عوام دشمن آواز کو اس نے مسترد کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو، جب جنرل ایوب خان کے طاقتور وزیر تھے تو لیاری گئے تھے۔ تب وہ با اختیار تھے اور پروٹوکول میں تھے مگر لیاری نے ان کا اسٹیج الٹ دیا تھا۔

Published: undefined

یہی بھٹو اقتدار کی پالکی سے اتر کر عوام کے نمائندہ بنے تو بھی لیاری گئے تھے۔ تب وہ بے اختیار تھے اور تنہا بھی تھے مگر لیاری نے اپنی پلکوں پر ان کے لیے ایک لازوال اسٹیج سجا دیا۔ یہ اسٹیج اس دن بھی سجا رہا، جب بھٹو کو دار پہ کھینچا گیا تھا۔ پورے ملک کے سیاسی چراغ جب سہم کر طاقوں میں سمٹ گئے تھے، لیاری کے چراغ تب بھی رہگزاروں میں جل رہے تھے۔ ان چراغوں کو مشرقی پاکستان جیسا سانحہ نہیں بجھا سکا تھا، کوئی دوسرا حادثہ کیسے بجھا سکتا تھا؟

Published: undefined

میں نے کہا نا کہ لیاری کی انرجی پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ یہاں کرکٹ جیسا کھیل کھیلا ہی نہیں جاتا، جسے کلونیل دور میں برطانیہ نے اپنے زیر نگیں ملکوں میں رواج بخشا تھا۔ برطانوی راج میں بھی یہ علاقہ کرکٹ سے بہت دور تھا۔ کرکٹ میں استعمال ہونے والی کرمچ کی گیند سے بھی یہ باقاعدہ فٹبال کھیلتے تھے۔

Published: undefined

امریکی سفارت خانے کو اس جنون نے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ سفارت خانے نے اپنے موبائل سنیماز بھجوا کر ان کو فٹبال شوز دکھانا شروع کر دیے تھے۔ لیاری کے فٹبالر کیپٹن عمر کی مہارتوں کے ڈنکے ہندوستان کے ایک ایک کلب میں پٹے ہوئے تھے۔ دلیپ کمار ان کے سچے پرستار تھے۔ اتنے سچے کہ ملاقات کے لیے کپتان عمر کو انہوں نے خود عرضی بھیجی تھی۔

Published: undefined

ڈھاکہ فٹبال کلب کا خطے میں نام تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان تک ڈھاکہ کے کلب میں آدھے سے زیادہ کھلاڑی ہوتے ہی لیاری کے تھے۔ ساٹھ میں ترکی کی فٹبال ٹیم پاکستان آئی تو ہماری قوم ٹیم کو آسانی سے شکست دے دی۔ یہی ٹیم پریکٹس میچ کے لیے کراچی گئی تو لیاری کے جوانوں نے پہلے ہی راؤنڈ میں دو گول کر کے ٹیم کے اوسان خطا کر دیے۔

Published: undefined

سر پکڑ لیے کہ اصل ٹیم کون سی ہے، وہ جس سے ہم کھیلے تھے، یا یہ جس سے اب ہم کھیل رہے ہیں؟ ترکی نے مگر دل سے قدر دانی کی۔ وہ جبار بلوچ اور مولا بخش گوٹائی کو ساتھ لے گئے۔ انقرہ کے میدان انہیں یاد تو کرتے ہوں گے۔

Published: undefined

کرکٹ میچ انڈیا پاکستان کا کیوں نہ ہو، لیاری کان لپیٹ کر اپنی دنیا میں مگن ہوتا ہے۔ فٹبال کا موسم ہو تو لیاری کے انگ انگ میں بجلیاں بھر جاتی ہیں۔ ہر گلی کی رات چاروں آنکھ جاگ جاتی ہے۔ سڑکیں ہر رنگ کی جھنڈیوں سے سج جاتی ہیں اور میدانوں میں سکرینیں نصب ہوجاتی ہیں۔ ایک میدان میں لائیو کرکٹ کے اتنے شائقین نہیں ہوتے ہوں گے، جتنے لوگ لیاری میں فٹبال کی سکرینوں کے سامنے بے قراری سے بیٹھے ہوتے ہیں۔

Published: undefined

لیاری کا گریبان چاک ہے اور دامن تار تار ہے۔ تکلیفیں سہہ سہہ کر لیاری کی شکل و صورت بدل گئی ہے مگر لیاری کی روایت نہیں بدلی۔ فیفا ورلڈ کپ کی آواز لگی ہے تو لیاری نے یہاں وہاں پچیس سے زائد سکرینیں نصب کر دیں۔

Published: undefined

جرمنی سے ارجنٹائن تک ہر ملک کا جھنڈا اور ہر ٹیم کی شرٹ نظر آ رہی ہے۔ دیواروں پر پیلے، رونالڈینو، رابرٹو کارلوس، میسی اور رونالڈو کی تصویریں ابھر آئی ہیں۔ اپنے پرانے فٹبالرز کو بھی یاد کر رہے ہیں، جو دکھنے میں برازیل کے کھلاڑیوں جیسے ہی تھے۔ یہ انہی کا جنون ہی تو تھا، جس نے لیاری کو چھوٹا سا برازیل بنا دیا تھا۔

Published: undefined

میں نے کہا نا کہ لیاری کی انرجی شاید پوری دنیا سے ہی مختلف ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ دنیا میں کرکٹ ہو یا فٹبال، عام طور سے مرد اور خواتین کی الگ الگ ٹیمیں ہوتی ہیں۔ لیاری اس سیارے پر درج وہ نقطہ ہے، جہاں فٹبال کی ٹیم میں لڑکے لڑکیاں ساتھ کھیلتے ہیں۔

Published: undefined

یہاں ٹیم میں اندراج صنف کی بنیاد پر نہیں ہوتا، اہلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لیاری سے ابھرتی ہوئی فٹبالر مائیکاں بلوچ اسی ٹیم کا حصہ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ منشیات اور بندوق کبھی ان کی پہچان نہیں تھی۔ علم اور محنت کے بعد ان کی پہچان یہی فٹبال ہے۔

Published: undefined

لیاری کی آنکھوں کے گرد اب گہرے سیاہ حلقے ہیں مگر ان آنکھوں میں اب بھی خواب پلتے ہیں۔ ایک آنکھ میں چھوٹے سے یونان کا خواب، دوسری آنکھ میں چھوٹے سے برازیل کا خواب۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined