سماج

کنگارو آنکھوں کے اشاروں سے انسانوں سے بات کر سکتے ہيں

برطانیہ اور آسٹریلیا کے ماہرین کے ایک گروپ نے دریافت کیا ہے کہ کانگارو انسانوں کے ساتھ اُسی طرح بات چیت کر سکتے ہیں جس طرح دیگر پالتو جانور کیا کرتے ہیں۔

کنگارو آنکھوں کے اشاروں سے انسانوں سے بات کر سکتے ہيں
کنگارو آنکھوں کے اشاروں سے انسانوں سے بات کر سکتے ہيں 

جہاں کوئی گڑ بڑ محسوس ہو وہاں سے بھاگ لو! کنگارو اپنی نگاہوں سے یہ اشارہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنی غذا تلاش کرنے میں مدد چاہیے۔ یہ انکشاف یونیورسٹی آف سڈنی کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ ميں ہوا۔ محققین کے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ جب کنگارو انسانوں سے مدد چاہتے ہیں تو وہ آنکھوں سے بہت طاقتور رابطہ بروئے کار لاتے ہیں۔

Published: undefined

ماہرین نے آسٹریلیا بھر میں وائلڈ لائف کے تین محفوظ مقامات میں غذا پلاسٹک کنٹینر میں بند کر کے رکھ دی اور اس طرح تجربات کے ایک سلسلے کا آغاز ہوا۔ بالکل کتوں کی مانند کنگاروز نے جب ان کنٹینرز کو کھولنے کی کوشش کی اور اس میں ناکام رہے تو ان محققین کو اپنی نگاہوں کے اشارے سے بتانا شروع کیا کہ انہیں اس عمل میں مدد چاہیے۔ سڈنی اسکول آف ویٹیرینری سائنس سے منسلک محقق اور اس مطالعے کی شریک مصنفہ ڈاکٹر الیکسزینڈرا گرین کے بقول، ''ان کی نگاہیں بڑی گہری اور شدت بھری تھیں۔ ہم پہلے یہ سمجھ رہے تھے کہ صرف پالتو جانور ہی کسی مسئلے کا شکار ہوں تو مدد طلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پتا چلا کہ کینگروز بھی ایسا کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

ڈاکٹر الیکسزینڈرا گرین مزید کہتی ہیں،''پالتو جانور وہ ہوتے ہیں جو کئی نسلوں سے گھروں میں رہنے کی تربیت پاتے ہیں۔ اس طرح گھوڑوں اور بکریوں کو بھی کتے ور بلیوں کی طرح کے پالتو جانور قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘

Published: undefined

سڈنی میں ہونے والی اس تحقیق کے دوران جن 16 کنگاروز کو شامل کیا گیا وہ جنگلی نہیں تھے۔ یعنی انہیں کسی جنگل سے نہیں پکڑا گیا تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ جنگلی کنگاروز انسانوں کے درمیان رہنے میں بہت خوف محسوس کرتے ہيں۔ محققین نے اپنی اس تحقیق کے لیے قید کیے گئے کنگاروز کا انتخاب کیا جنہیں تربیت نہیں دی گئی تھی۔ ماہرین کے مطابق 'مارسوپیلز‘ یا ایسے جانور جو تھیلی دار ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں اور اپنی تھیلی میں اپنے بچوں کو رکھتے ہیں، ان کی ذہنی قابلیت پر بہت ہی کم ریسرچ کی گئی ہے۔

Published: undefined

روہمپٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایلن میک ایلیگوٹ کہتے ہیں،'' کنگاروز پہلے مارسوپیلز‘ ہیں جن پر اس طرح سے ریسرچ کی گئی اور اس تحقیق کے مثبت نتائج کی وجہ سے آئندہ عمومی گھریلو جانوروں کے علاوہ بھی مزید اس نوع کے جانوروں کی ذہنی قابلیت پر تحقیق کی جا سکے گی۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined