سماج

اطالوی سوشل میڈیا صارفین ملکی جج پر برہم کیوں ہیں

ایک سترہ سالہ طالبہ پر جنسی حملے کے الزام میں ایک اسکول نگران کو رہا کرنے پر اطالوی سوشل میڈیا صارفین عدالت پر سخت برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔

اطالوی سوشل میڈیا صارفین ملکی جج پر برہم
اطالوی سوشل میڈیا صارفین ملکی جج پر برہم 

سترہ سالہ طالبہ کا الزام تھا کہ اسکول کی عمارت کے نگران نے انہیں عقب سے دبوچا، تاہم عدالتی فیصلے کے مطابق یہ حملہ چوں کہ فقط پانچ سے دس سیکنڈ طویل تھا، اس لیے حملہ کرنے والے شخص کو رہا کر دیا گیا۔

Published: undefined

اس ٹین ایجر کا کہنا تھا کہ ملکی دارالحکومت روم کے ایک ہائی اسکول میں وہ سیڑھیوں پر اوپر کی جانب جا رہی تھی، جب اس حملہ آور نے اس کا ٹراؤزر کھینچا اور اپنے ہاتھ سے اس کے جسم کے نازک اعضاء کو چھونے کی کوشش کی۔ اس حملہ آور نے بھی اس واقعے کا اعتراف کیا تھا، تاہم اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا فقط مذاقاﹰ کیا تھا۔ یہ واقعہ اپریل دو ہزار بائیس میں پیش آیا تھا۔

Published: undefined

روم میں گزشتہ ہفتے اس مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ چوں کہ یہ حملہ 'فقط چند سیکنڈ‘ پر مبنی تھا اور جنسی نوعیت کا نہیں تھا اور چوں کہ اس کا دورانیہ انتہائی قلیل تھا، اسے لیے ''نازیبا‘‘ ہونے کے باوجود اس کے مذاق ہونے کی دلیل مضبوط دکھائی دیتی ہے۔

Published: undefined

اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر اطالوی صارفین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اداکار اور کامیڈین پاؤلو کامیلی نے ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو میں دس سیکنڈ تک خود اپنی ہی چھاتی دبائی اور اس کے بعد کہا، ''اگر یہ جنسی حملہ نہیں ہے، تو پھر جنسی حملہ کس کو کہتے ہیں؟‘‘ اس ویڈیو کے بعد درجنوں مردوں اور خواتین نے اسی طرح اپنے سینے سہلاتے ہوئے بنائی گئی ویڈیوز میں دس سیکنڈ کی الٹی گنتی گنی۔

Published: undefined

اسی طرح اس عدالتی فیصلے پر طنزیہ بنائی گئی ایک اور ویڈیو میں ایک خاتون ایک شخص پر اپنے کولہے دبانے کا الزام عائد کر رہی ہے، جس کے جواب میں وہ شخص کہہ رہا ہے کہ اس نے دس سیکنڈ سے کم وقت کے لیے اس خاتون کو چھوا ہے، اس لیے یہ کوئی جرم نہیں۔

Published: undefined

اس عدالتی فیصلے پر خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید تنقید کی ہے۔ خواتین کے حقوق کی اطالوی تنظیم ڈیفرینزا ڈونا کی صدر ایلسا ایرکولی نے کہا کہ یہ ہر اعتبار سے ایک جنسی حملہ تھا، ''جج نے یہ نہیں کہا کہ یہ واقعہ پیش نہیں آیا۔ جج نے اس واقعے کو تسلیم کیا اور اس کے باوجود کہا کہ یہ کسی خاتون کی تکریم پر حملہ نہیں ہے۔ ہم اس تشریح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ اس لیے بھی سنجیدہ نوعیت کا تھا، کیوں کہ یہ ایک اسکول کی عمارت میں پیش آیا، جہاں لڑکے اور لڑکیاں خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined