سماج

جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد نو سال میں دو گنی

جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد دو ہزار چودہ سے لے کر گزشتہ برس کے آخر تک کے عرصے میں دو گنا ہو گئی۔ پچھلے سال دسمبر کے اختتام پر ایسے غیر مقامی افراد کی تعداد ساڑھے انتیس ہزار بنتی تھی۔

جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد نو سال میں دو گنا
جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد نو سال میں دو گنا 

فرینکفرٹ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن ادارہ برائے شماریات کی طرف سے بتایا گیا کہ 2005ء سے لے کر 2013ء تک کے عرصے میں یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں ایسے افراد کی تعداد سالانہ اوسطاﹰ 13 ہزار اور 14 ہزار کے درمیان رہی تھی، جو مسلمہ طور پر کسی بھی ملک کے شہری نہ ہونے کی وجہ سے بےوطن تسلیم کیے گئے تھے۔

Published: undefined

لیکن 2014ء میں ملک میں بڑی تعداد میں مہاجرین، تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کی آمد کے ساتھ یہ تعداد مسلسل کافی زیادہ رہنے لگی تھی۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سال 2022ء کے اختتام پر جرمنی میں ایسے بے وطن انسانوں کی تعداد تقریباﹰ دو گنا ہو کر 29 ہزار 455 ہو چکی تھی۔پچھلے سال کے اختتام پر ملک میں ایسے بے وطن انسانوں میں سے تقریباﹰ نصف (48 فیصد) ایسے تھے، جو پیدا تو شام میں ہوئے تھے مگر اب قانوناﹰ بے وطن ہیں۔

Published: undefined

جرمن دفتر شماریات کے مطابق 2022ء کے آخر پر ملک میں جتنے بھی بے وطن انسان رجسٹرڈ تھے، ان میں سے تقریباﹰ ایک چوتھائی کی عمریں 18 سال سے کم تھیں اور وہ نابالغ تھے۔

Published: undefined

بے وطن ہوتا کون ہے؟

اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ تعریف کے مطابق کوئی بھی انسان بے وطن اس وقت سمجھا جاتا ہے، جب کوئی بھی ملک اسے اپنا شہری تسلیم نہ کرے۔ کسی بھی انسان کی مہاجر یا تارک وطن کے طور پر بے وطن کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔

Published: undefined

ان وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس فرد کے پاس اپنے کوئی سرکاری طور پر جاری کردہ دستاویزی شواہد مثلاﹰ شناختی کارڈ یا پیدائش کا سرٹیفیکیٹ وغیرہ نہ ہوں۔ لیکن عملی طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مختلف انسانوں کے ساتھ ان کی صنف کی بنیاد پر کیا جانے والا امتیازی سلوک بھی ان کی بے وطنی کا سبب بن سکتا ہے۔

Published: undefined

جرمن دفتر شماریات کے مطابق، ''یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی عورتیں اپنی شہریت اپنے بچوں کو منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ والد یا تو متعلقہ بچے کی ولدیت تسلیم نہیں کرتا یا پھر نامعلوم ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ کہ کوئی بھی بچہ قانوناﹰ خود بخود بے وطن ہو جاتا ہے۔‘‘

Published: undefined

پیدائش جرمنی میں، لیکن پھر بھی بے وطن

گزشتہ برس کے آخر تک جرمنی میں جتنے بھی انسان بے وطن رجسٹر تھے، ان میں سے 4,860 ایسے تھے، جو پیدا تو جرمنی ہی میں ہوئے تھے، مگر ان کے والدین انہیں اپنی شہریت منتقل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ قبل ازیں 2014ء میں ایسے افراد کی تعداد 3,550 رہی تھی۔

Published: undefined

جرمنی میں پیدا ہونے والے سبھی بچوں کو قانوناﹰ خود بخود ہی جرمن شہریت نہیں مل جاتی۔ والدین میں سے کوئی ایک جرمن شہری ہو تو ایسا لازمی ممکن ہوتا ہے۔ ایسا اس صورت میں بھی ممکن ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کے والدین میں سے کم از کم کوئی ایک آٹھ سال سے ملک میں قانونی طور پر مقیم ہو، یا اسے جرمنی میں لامحدود عرصے کے لیے رہائش کا حق حاصل ہو، یا پھر وہ کسی اور طرح کی خصوصی رہائشی حیثیت کا حامل ہو۔

Published: undefined

ان قانونی امکانات کا اطلاق مگر بے وطن انسانوں پر نہیں ہوتا۔ وہ اس حیثیت میں جرمنی میں اپنا قیام جاری تو رکھ سکتے ہیں مگر قانونی دستاویزی سطح پر بے وطن ہی رہتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined