سماج

کتاب سے اسکرین تک، ادب کی بے ادبی

الیکٹرانک کتب کے فلسفے نے معلومات تک رسائی کو آسان تو کیا مگر نتیجہ کچھ برعکس بھی نکلا۔ نت نئی ایپ کتابوں سے دور کرتی گئیں۔ اس سارے سلسلے میں سب سے زياده بے ادبی شاید ادب کی ہو رہی ہے۔

کتاب سے اسکرین تک، ادب کی بے ادبی
کتاب سے اسکرین تک، ادب کی بے ادبی 

تکنیکی ترقی سے جہاں دنیا سمٹ کے ہتھیلی میں سما گئی اور انسان کو ان گنت فوائد حاصل ہوئے، وہیں کہیں نہ کہیں نقصانات بھی ہوتے چلے گئے۔ الیکٹرانک کتب کے فلسفے نے معلومات تک رسائی کو آسان تو کیا مگر نتیجہ کچھ برعکس بھی نکلا۔ نت نئی ایپ کتابوں سے دور کرتی گئیں۔ اس سارے سلسلے میں سب سے زياده بے ادبی شاید ادب کی ہو رہی ہے۔ اردو ادب میں دلچسپی عمومی طور پر ایک پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ دیکھی جاتی تھی، جو علم اور شعور بھی رکھتے تھے اور درس و تدریس میں بھی نمایاں رہے تھے مگر گزشتہ کچھ برسوں میں شعر و شاعری، اقوال زریں اور یہاں تک کہ احادیث بھی آگے سے آگے شیئر کرنے کا رواج بہت عام ہو گیا ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسی ایپ پر دن رات کچھ نہ کچھ ایسا شیئر ہوتا رہتا ہے جس کے الفاظ میں ردوبدل سے لے کر پورا مفہوم ہی تبدیل کرکے بلا تصديق آگے پھیلا دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے بڑے بڑے معروف نام بھی بلا جھجک یہ آڑی ترچھی شاعری پڑھتے اور داد وصول کرتے نظر آتے ہیں۔

Published: undefined

شاعر مشرق سے لے کر جون ایلیا تک سب کی شاعری کی بے دھڑک پامالی معمول بنتی چلی جا رہی ہے۔ ایسی ایسی ناقص اور من گھڑت شاعری کو بڑے بڑے شعراء کے ناموں سے منسوب کیا جارہا ہے کہ جو شاعری میں کچھ دلچسپی رکھتا ہو اور مستند دیوان اور کچھ کتب پڑھ رکھی ہوں تو اپنا سر ہی پیٹ سکتا ہے۔ سوچیں اگر یہ شاعر خود زندہ ہو تو کیا کریں؟ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے نام سے سینکڑوں ایسے اشعار انٹرنیٹ پر موجود ہیں جو کہ ان کے کسی دیوان میں موجود نہیں۔ علامہ خود زندہ ہوتے تو شاید ان سب پر مقدمہ کر چکے ہوتے جو ایسا جعلی کلام ان کے نام سے منسوب کررہے ہیں اور اندھا دھند آگے سے آگے پھیلاتے چلے رہے ہیں۔ یہ يقيناً لمحہ فکریہ ہے کہ یہ من گھڑت کلام اس تیزی سے عام ہو رہا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ شاید مندرجہ ذیل شعر تو جلد نصاب کی کتب میں بھی پایا جائے گا۔

Published: undefined

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ

املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ

ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

Published: undefined

یہ شعر علامہ اقبال کی کسی شاعری کی کتاب میں نہیں پایا جاتا مگر ان کی تصویر کے ساتھ ایسے فریم میں ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی قائل ہو جائے اور شعر کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ شوق سے استعمال بھی ہوتا ہے۔

Published: undefined

افسوس کا مقام یہ ہے کہ نئے نثری شعراء ناصرف ردیف، قافیہ، بحر و عروض قواعد سے نابلد ہوتے ہیں بلکہ اکثر اوقات املا کی بھی ناقابل معافی غلطی کے باوجود بھی اتنے بڑے شاعر کا نام منسوب کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر بہادر شاہ ظفر کا یہ شہرہ آفاق شعر

Published: undefined

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

یہ شعر لیکن سوشل میڈیا پر اس حالت میں ملتا ہے

نہ تھی جب اپنے ہال کی خبر دیکھتے رہے لوگوں کے عیب و ہنر

پھر جب پڑی اپنے ہی گناہوں پر نظر تو نگاه میں کوئی اور برا نہ رہا

Published: undefined

اب یہ اس قدر نثر نما، بے وزن اور املا کی اغلاط سے بھرا شعر اقبال سے جوڑنے سے پہلے کچھ املا پر ہی غور کر لیتے تو شاید انہیں ادراک ہو جاتا ہے کہ یہ عیب اور گناہ شادی ہال میں تھے یا وقت کے ماضی اور حال میں؟

Published: undefined

یہ سلسلہ صرف من گھڑت شاعری پر ختم نہیں ہوتا بلکہ شعراء کے نام آپس میں بھی اکثر بدل دیے جاتے ہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ یہ شعر بھی علامہ اقبال کا ہے۔

تندى باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

Published: undefined

یہ شعر درحقیقت سید صادق حسین صاحب کا ہے جو سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر، وکیل اور تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ اسی طرح یہ مندرجہ ذیل شعر مولانا محمد علی جوہر کا ہے مگر عام طور پر علامہ اقبال کے نام سے ہی شیئر کیا جاتا ہے:

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Published: undefined

یہ ادبی بے ادبی کا سلسلہ صرف اقبال تک محدود نہیں ہے۔ بلھے شاہ بابا فرید الدین گنج شکر اور خواجہ غلام فرید کا نام بھی اکثر ایک دوسرے کی شاعری سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح فیض لدھیانوی کی ایک مشہور نظم اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے؟ عموماً فیض احمد فیض کے نام اور تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر پائی جاتی ہے۔

Published: undefined

اسی طرح جون ایلیا کی شاعری کا مزاج کچھ بے تکلفانہ دیکھ کر سب مختلف سے اشعار انہی کے نام سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ مثلاً

تم جو کہتی ہو چھوڑ دو سگریٹ

تم میرا ہاتھ تھام سکتی ہو

یہ شعر ارشد عباس ذکی کا ہے مگر سوشل میڈیا پر جون ایلیا کے نام سے ہی پایا جاتا ہے۔

Published: undefined

ایسا ہی کچھ سلوک غالب کی شاعری کے ساتھ بھی ہوتا نظر آتا ہے کہ وہ خود زندہ ہوتے تو غالباً شاعری ہی ترک کر دیتے۔ فیض احمد فیض اور حبيب جالب جیسے بڑے شعراء نے حاکم وقت کے متعلق جو اشعار کہے وہ آج کل بچہ بچہ اپنی اپنی سیاسی پارٹی کی سچائی ثابت کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور پھر چاہے شک ہو یا اشک دونوں ہی ق سے لکھے نظر آتے ہیں۔ ہر قسم کی تحریکی اور حوصلہ افزا شاعری کو با آسانی فیض کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے پھر چاہے وہ فہمیدہ ریاض صاحبہ جیسی باقاعده شاعرہ کی شاعری ہو یا برابر والے محمد فیض صاحب کی، ہر جگہ نام فیض احمد فیض کا ہی ملے گا۔ اسی طرح ہجر اور فراق کی شاعری پروین شاکر کے نام سے منسوب کی جاتی ہے چاہے وہ شاعری وزن اور بحر کے اعتبار سے اتنی ناقص ہو کے شاعری کہلانے کے قابل بھی نہ ہو۔

Published: undefined

احمد فراز صاحب کا تخلص تو ہر جگہ ایسے استعمال کیا جاتا ہے جیسے نئی نسل کو کوئی خاص لائسنس جاری کیا ہو۔ منير نیازی، محسن نقوی، وصی شاہ اور امجد اسلام امجد صاحب کی نظموں کی زمین پر کی گئی طبع آزمائی کو بھی باسہولت ان شعراء کے نام سے ہی فیس بک اور ا نسٹا گرام پر دیکھا جاتا ہے۔

Published: undefined

صرف شاعری ہی نہیں بلکہ اکثر اقوال زریں سے لے کر احادیث تک بلا تصدیق آگے پھیلائی جاتی ہیں۔ کچھ الفاظ جمع کرکے انہیں بانوقدسیہ اور اشفاق احمد صاحب کے ناموں اور تصویر کے ساتھ کہیں بھی استعمال کرنا تو تقریباً جائز ہی تصور کر لیا گیا ہے۔ میں نے خود حال ہی میں سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ دیکھی کہ ارسطو نے بھی کہا تھا کہ فیس بک کی ہر پوسٹ پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔

Published: undefined

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم ایک دفعہ کسی کتاب کھول کر دیکھ لیں یا کم ازکم کسی آن لائن مستند ذریعے سے ہی کچھ تصدیق کریں؟ مگر بدقسمتی سے یہاں تو املا کی غلطیاں تک لکیر کی فقیر بنی آگے شیئر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ نت نئی ایپ نے ہم سب کی توجہ کی مدت کو اتنا مختصر کر دیا ہے کہ تصویریں اور ناموں کے ساتھ پائی جانے والی شاعری ہمیں فوراً قائل کرلیتی ہے اور ظاہر ہے کہ کسی بھی ذریعے سے تصدیق کرنے میں کوئی بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ معاشرے کے اس حصے کا اتنا نقصان نہیں ہو رہا جو شاید صرف شوقیہ اور فیشن کے طور پر شاعری پڑھتے اور آگے شیئر کرتے ہیں، زیاده نقصان شاید مجھ جیسے چند لوگوں کا ہو رہا ہے، جو شاعری اور ادب سے شغف تو رکھتے ہیں مگر اتنا علم نہیں رکھتے اور مزید سیکھنے کی ہر کوشش پر سوشل میڈیا حاوی رہتا ہے۔ اس سب نفع نقصان کے درمیان پامالی اردو ادب کی ہو رہی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام اور کچھ سطحی معیار کے مطابق یوں بھی اردو پڑھنا یا بولنا کچھ گراں ہی گزرتا ہے اور اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آئندہ نسلیں شاید صرف سوشل میڈیا کی شاعری تک ہی اردو ادب کو محدود پائیں گی۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined