سماج

یہاں بس سفید ہاتھی ہی پل سکتے ہیں

پاکستان میں چڑیا گھروں کی وہی حالت ہے جو گورننس کے دیگر شعبوں کی ہے۔ سفید ہاتھی یہاں خوب پھلتے پھولتے ہیں مگر ایک بھی اصلی ہاتھی کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں ہے۔

یہاں بس سفید ہاتھی ہی پل سکتے ہیں
یہاں بس سفید ہاتھی ہی پل سکتے ہیں 

جب کسی درباری کو سزا دینا یا سبق سکھانا مقصود ہوتا تو اگلے وقتوں کے بادشاہ اس درباری کو تحفتاً ہاتھی بخش دیتے۔ اب یہ درباری کا فرض تھا کہ نہ صرف شاہ کے بخشے ہاتھی کو کسی بیماری یا حادثے میں مرنے نہ دے بلکہ اسی طرح خوش و خرم موٹا تازہ رکھے جس طرح اسے شاہی باڑے میں رکھا جاتا تھا۔ مبادا بادشاہ کسی دن اچانک اپنے بخشے تحفے کی خیر خبر نہ معلوم کر بیٹھے۔ چنانچہ ہاتھی کی غذا اور دیکھ بھال پر غریب درباری کا اکثر اتنا صرفہ ہو جاتا کہ رفتہ رفتہ وہ اسے خوش و خرم رکھنے کے چکر میں خود قلاش ہو جاتا۔

Published: undefined

یہ نکتہ یوں یاد آیا کہ کراچی کے چڑیا گھر میں نظربند ہتھنی ”نورجہاں‘‘ کو چند ماہ سے ایسی اعصابی و عضلاتی بیماری لاحق ہے جس کے سبب اس کا چلنا پھرنا، کھانا پینا دوبھر ہو گیا ہے۔

Published: undefined

قصہ یوں ہے کہ نور جہاں، مدھوبالا، ملکہ اور سونو کو دو ہزار نو میں تنزانیہ سے خرید کے کراچی لایا گیا۔ کچھ عرصہ چاروں کو سفاری پارک کی نسبتاً کھلی جگہ میں ایک ساتھ رکھا گیا۔ پھر نور جہاں اور مدھوبالا کو پرانے چڑیا گھر میں منتقل کر دیا گیا۔

Published: undefined

ہاتھی فطرتاً کسی ایک جگہ بندھ کے رہنا پسند نہیں کرتا۔ وہ ایک سماج پسند اور مشترکہ خاندان میں رہنے کا عادی ہے۔ بیشتر زندگی جنگلوں میں پانی اور خوراک کی تلاش میں مسلسل سفر میں گذرتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ اسی فیصد زندگی چلتے رہنے اور کھانے پینے کی تلاش میں صرف ہوتی ہے۔ ہاتھی کی حساسیت و یادداشت اس کے جثے سے بھی بڑی ہوتی ہے۔

Published: undefined

اگر بچپن میں ماں اور کنبے برادری سے جدا کیا جائے تو یہ وارادت زندگی بھر بے چین رکھتی ہے۔ ہاتھی اکیلے رہنا پسند نہیں کرتے البتہ جدید زندگی کا مسلسل شور اور انسانوں کی وقت بے وقت موجودگی انہیں ذہنی دباؤ میں رکھتی ہے۔

Published: undefined

سوچیے ایسے آزاد فطرت جانور کو کسی بھی جواز یا عذر کے تحت تاحیات ایک محدود احاطے میں رہنا ہو، نقل و حرکت انتہائی محدود ہونے کے بعد محض وزن بڑھتا رہے، نجی لمحات کا وجود ہی نہ رہے، بھانت بھانت کے تماشائیوں اور اناڑی عملے سے پالا پڑتا رہے، پاؤں میں مسلسل زنجیر ہو، کوئی دوسرا ہاتھی ساتھی بھی نہ ہو، ہو بھی تو آنکھوں کے سامنے مر جائے۔ جسمانی تکلیف، اداسی، اردگرد سے لاتعلقی اور مسلسل ذہنی دباؤ محسوس کرنے والا کوئی نہ ہو۔ پھر یہی ہوتا ہے جو نور جہاں کے ساتھ ہوا یا اس سے پہلے کاون کے ساتھ ہوا۔

Published: undefined

کاون کا قصہ تو آپ کو شائد یاد ہو جب اسے اسلام آباد کے چڑیا گھر سے انتہائی خراب طبی حالت میں ایک بین الاقوامی دستخطی مہم (چار لاکھ دستخط)، اسلام آباد ہائی کورٹ کی مداخلت اور عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ و اداکارہ شیر کی سوشل میڈیا مہم کے دباؤ کے بعد بالاخر نومبر دو ہزار بیس میں کمبوڈیا میں ہاتھیوں کی کھلی پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا۔ اسے صدرِ پاکستان عارف علوی نے بذاتِ خود الوداع کیا۔

Published: undefined

کیا ستم ظریفی ہے کہ کاون کی پرورش سری لنکا کے ایک ہاتھی یتیم خانے میں ہوئی جب ایک برس کی عمر میں اسے ماں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ انیس سو پچاسی میں ننھے کاون کو فوجی صدر ضیا الحق کی صاحبزادی زین کی فرمائش پر تحفتاً اسلام آباد زو بھجوایا گیا۔ مگر ایک ریاست کی جانب سے دوسری ریاست کے حکمران کو دئیے جانے والے ”شاہی تحفے‘‘ کو کبھی سکون کا پل نصیب نہ ہوسکا۔

Published: undefined

انیس سو نوے میں کاون کو بنگلہ دیش سے آنے والی ”سہیلی‘‘ کی شکل میں ایک ہم جولی نصیب ہوا۔ مگر سہیلی دو ہزار بارہ میں کاون کی آنکھوں کے سامنے کسمپرسی میں مر گئی۔

Published: undefined

کاون سے بھی اہلکاروں نے جو سلوک کیا، جس طرح پابہ زنجیر رکھا گیا، خوراک اور دیکھ بھال کے بجٹ میں خردبرد ہوتی رہی۔ اگر جانوروں سے محبت کرنے والے کچھ مقامی لوگ اس کی حالتِ زار پر شور نہ مچاتے تو کاون بھی ایک دن اسی زو میں مر جاتا۔ مگر دنیا کے سب سے تنہا ہاتھی کا خطاب پانے والے کاون کی قسمت نے یاوری کی اور اسے اس جہنم سے ایک دن آزادی نصیب ہو گئی۔کمبوڈیا پہنچنے کے کچھ ہی عرصے بعد کھلی فضا میں کاون کی ذہنی و جسمانی صحت بھی تیزی سے بہتر ہوتی چلی گئی۔ سنا ہے کہ وہ وہاں دیگر ہاتھیوں کی صحبت میں بہت خوش ہے۔

Published: undefined

کاون کی زندگی بچانے میں جانوروں کی فلاح سے متعلق سرکردہ بین الاقوامی تنظیم ”فور پا‘‘ کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ ڈاکٹر عامر خلیل کی سربراہی میں فور پا کے طبی ماہرین کی ایک ٹیم نے غلامی کے آخری دنوں میں کاون کی جسمانی تکلیف دور کی۔

Published: undefined

فور پا کی اسی ٹیم نے گذشتہ ہفتے کراچی زو میں نور جہاں کی ایک ٹانگ کا آپریشن کیا۔ اس کے بعد زندہ رہنے کے امکانات پچاس سے بڑھ کے ستر فیصد ہو گئے۔ مگر اس حقیقت کا کوئی مداوا نہیں کہ کھلی فضا میں رہنے والے ہاتھیوں کے مقابلے میں مقید ہاتھی کی طبعی عمر آدھی رہ جاتی ہے۔ بھلے اسے کیسی بھی سہولت میں رکھا جائے۔

Published: undefined

پاکستان میں چڑیا گھروں کی وہی حالت ہے جو گورننس کے دیگر شعبوں کی ہے۔ سفید ہاتھی یہاں خوب پھلتے پھولتے ہیں مگر ایک بھی اصلی ہاتھی کو سنبھالنے کی نہ اہلیت ہے، نہ وسائل، نہ نئیت۔ یہ صرف کسی مخصوص ہاتھی کا احوال نہیں۔ چڑیا گھروں میں مقید ہر چرند پرند ایک جیسے عذابِ مسلسل سے گذر رہا ہے۔

Published: undefined

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاون کی رہائی سے متعلق اپنے حکم میں یہ بھی کہا تھا کہ اسلام آباد زو کو ہی ختم کر دیا جائے۔ ویسے بھی اسلام آباد کو الگ سے کسی زو کی کیا ضرورت؟

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined