سماج

مائیگریشن: جرمن شہروں کا مہاجرین کے لیے مزید رقوم کا مطالبہ

جرمنی کی وفاقی، ریاستی اور مقامی حکومتوں کے مابین پناہ گزینوں سے متعلق اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ ماہرین کے مطابق اس سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

مائیگریشن: جرمن شہروں کا مہاجرین کے لیے مزید رقوم کا مطالبہ
مائیگریشن: جرمن شہروں کا مہاجرین کے لیے مزید رقوم کا مطالبہ 

وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے مزید وفاقی املاک فراہم کرنے کی پیش کش کی، تعاون کے لیے ایک نیا ورکنگ اسٹرکچر تجویز کیا اور موسم بہار میں ایک اور اجلاس منعقد کرنے کی تجویز بھی دی۔

Published: undefined

تاہم انہوں نے وفاقی جرمن صوبوں، شہروں اور بلدیات کے لیے مزید مالی امداد کی پیش کش نہیں کی اور اس بات پر زور دیا کہ وفاقی حکومت اس سال پہلے ہی 2.75 ارب یورو فراہم کرنے کا وعدہ کر چکی ہے۔ اس فیصلے کے مثبت نتائج نہ نکلے۔ برلن منعقدہ اس سمٹ کے بعد جرمن ریاست ہیسے کے وزیر داخلہ پیٹر بیوتھ کا کہنا تھا کہ ’ملک کا ماحول خراب‘ ہونے کا خطرہ ہے۔

Published: undefined

جرمن بلدیاتی اداروں کی تنظیم کے سربراہ رائنہارڈ زاگر نے اجلاس کو مایوس کن قرار دیا اور چانسلر اولاف شولس کی عدم شرکت پر شدید تنقید کی۔ زاگر کا کہنا تھا، ’’ہمیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے۔‘‘

Published: undefined

سب کے لیے مشکل وقت

شہر بیلےفَیلڈ کے میئر پٹ کلاؤزن سے پوچھا گیا کہ ان کا شہر یوکرین کی جنگ کے سبب آنے والے مہاجرین سے کیسے نمٹ رہا ہے، تو وہ مطمئن دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل صورت حال سمٹ میں دکھائی دینے والے موڈ سے بہتر ہے۔

Published: undefined

جرمنی کے مغربی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں واقع اس شہر میں تقریباﹰ تین لاکھ 40 ہزار باشندے رہتے ہیں، جن میں چار ہزار یوکرینی مہاجرین بھی شامل ہیں۔ کلاؤزن کا کہنا تھا، ’’بیلےفَیلڈ جیسا بڑا شہر ایسی صورت حال کا آسانی سے سامنا کر سکتا ہے۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے بتایا کہ ان پناہ گزینوں میں سے نصف سے زیادہ اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اب کسی کو بھی اسکولوں میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکنے کی ضرورت نہیں۔ کلاؤزن نے یہ بھی بتایا کہ یوکرینی مہاجرین کے سبھی بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز اور اسکولوں میں داخلہ بھی مل چکا ہے۔ ’’بنیادی طور پر نظام نے سبھی کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور انہیں جگہ فراہم کی ہے۔ پہلے آنے والے سبھی مہاجرین کو نوکریاں مل چکی ہیں۔‘‘ کلاؤزن کے مطابق زیادہ تر پناہ گزین آباد ہو کر اپنی زندگیوں کے ساتھ آگے بڑھ چکے ہیں۔

Published: undefined

جرمنی میں قریب 11 ہزار شہر اور قصبے ہیں۔ ان میں سے صرف چند کا تجربہ ہی اس معاملے میں بیلےفَیلڈ کی طرح مثبت ہے۔ سن 2022 میں یوکرین کے دس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کے علاوہ تقریباﹰ دو لاکھ 44 ہزار پناہ گزین شام، افغانستان، ترکی اور عراق سے بھی جرمنی آئے۔

Published: undefined

صرف رہائش گاہوں کی کمی ہی نہیں

جنوبی جرمن صوبے باویریا کے سوا لاکھ سے زائد آبادی والے علاقے ملٹن برگ میں گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر ژینس مارکو شیرف کا اندازہ ہے کہ انہیں سن 2015 میں درپیش مہاجرین کے بحران کی نسبت اب کی بار زیادہ افراد کو پناہ دینا پڑی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام بلدیاتی اداروں پر حد سے زیادہ بوجھ ہے اور وہ نظام پر مزید بوجھ ڈالنے کا جواز پیش نہیں کر سکتے۔

Published: undefined

ملٹن برگ کی مقامی حکومت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسم خزاں کے بعد سے اس چھوٹے سے قصبے کو ہر ہفتے پناہ گزینوں کو رہائش دینے کے لیے گھر کرائے پر لینا پڑ رہے ہیں۔ تاہم اب بھی رہائش کے متلاشی افراد کی طویل فہرست انتظار میں ہے، جس کی وجہ سے پناہ گزینوں کو طویل عرصے تک عارضی قیام گاہوں میں رکنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

Published: undefined

شہر کو درپیش صورت حال کی روشنی میں شیرف نے وفاقی اور ریاستی حکومتوں سے ’امیگریشن کو محدود‘ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے آخری سربراہی اجلاس میں بھی اسی بات پر اتفاق کیا تھا۔ یورپی یونین نے فیصلہ کیا تھا کہ سرحدوں پر سختی کی جائے گی اور جن لوگوں کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، انہیں ملک بدر کیا جائے گا۔ تاہم اس فیصلے سے یوکرینی شہری متاثر نہیں ہوں گے کیوں کہ انہیں پناہ کی درخواست جمع کرانے کے عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

Published: undefined

حالیہ عرصے کے دوران جرمنی آنے والے دیگر پناہ گزینوں کے حوالے سے دیگر خدشات بھی موجود ہیں۔ سماجی انضمام صرف رہنے کے لیے جگہ تلاش کرنے ہی کا نام نہیں ہے۔ جرمنی کے جنوب میں واقع ایک قصبے لِنڈاؤ میں وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں، صرف پناہ گزینوں ہی کے لیے نہیں بلکہ مقامی شہریوں کے لیے بھی۔ مقامی حکام کے مطابق، ’’جب پناہ گزینوں کو مناسب طریقے سے رہائش نہیں دی جاتی اور ان کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی، اساتذہ اپنی ذمہ داریاں مناسب طریقے سے ادا نہیں کر سکتے، چائلڈ کیئر کی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے، اسکولوں یا سپورٹس کلبوں کے لیے جمنازیم دستیاب نہیں ہوتے۔‘‘

Published: undefined

جھیل کونسٹانس کے کنارے واقع اس خوبصورت قصبے کی آبادی تقریبا 81 ہزار ہے اور یہ اپنی تشہیر ’جنت کے بہت قریب‘ کے سلوگن سے کرتا ہے۔ یہ قصبہ ان بہت سے بلدیاتی علاقوں میں سے ایک ہے، جو کئی ہفتوں سے وفاقی حکومت سے فوری طور پر مزید مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

Published: undefined

برلن حکومت کا اربوں یورو کی امداد کا وعدہ

جرمن چانسلر اولاف شولس نے وفاقی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا، ’’ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ جرمن بنڈس ٹاگ سے اپنے خطاب میں انہوں نے یقین دلایا کہ گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی ریاستی اور مقامی حکومتوں کو اربوں یورو مہیا کیے جائیں گے تاکہ نئے آنے والے پناہ گزینوں کی دیکھ بھال یقینی بنائی جا سکے۔

Published: undefined

تاہم چانسلر شولس کوئی ٹھوس وعدہ کرنے سے گریزاں دکھائی دیے۔ دریں اثنا وفاقی ریاستیں اور شہر مزید افراد کو پناہ دینے کے بارے میں پریشان دکھائی دیے۔ ہانیس شامان ہِلڈسہائم یونیورسٹی میں مائیگریشن پالیسی کے پروفیسر ہیں۔ ان کے مطابق پناہ گزینوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے کے حوالے سے زیادہ تر مسئلہ بلدیات کے تجربے کا ہے۔

Published: undefined

شامان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جن شہروں نے سن 2015 میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے انفراسٹرکچر بنایا اور اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا تھا، وہ موجودہ بحران سے نمٹنے کی پوزیشن میں ہیں۔‘‘ جرمنی کے شمالی شہر ہینوور کے میئر بیلیٹ اونے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یوکرین پر حملہ شروع ہونے کے بعد ہم چند دنوں کے اندر اندر تجارتی نمائش گاہوں میں استقبالیہ مراکز بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے موجودہ صورت حال کو ’چیلنجنگ‘ قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا، ''فی الحال استعداد بڑھانے کے لیے مسلسل کام کرنے اور شہری انتظامیہ کے مختلف اداروں کے مابین مضبوط تعاون کے ذریعے اس سے نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘

Published: undefined

بڑی رکاوٹیں بدستور موجود

سن 2022 میں وفاقی حکومت نے یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے چار ہزار اضافی اپارٹمنٹس فراہم کیے۔ تاہم ان میں سے صرف دو تہائی میں رہائش فراہم کی گئی۔ باقی عمارتیں ایسی ہیں جو طویل عرصے سے خالی پڑی تھیں اور ان میں بجلی اور پانی کی سہولیات کی کمی تھی۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں وہاں تمام سہولتیں مہیا کر دی جائیں گی۔

Published: undefined

گرین پارٹی، جو مرکز میں ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت میں ہے، نے پناہ گزینوں کے لیے نجی ہاؤسنگ مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنانے کی تجویز دی ہے۔ وفاقی پارلیمان میں پارٹی کی مائیگریشن پالیسی کے ترجمان فیلیز پولات نے ایک قانون میں تبدیلی کی تجویز پیش کی ہے، جو زیادہ تر مہاجرین کو براہ راست نجی مکانات میں رہائش اختیار کرنے سے روکتا ہے۔

Published: undefined

اس وقت دیگر پناہ گزینوں کے برعکس یوکرینی مہاجرین جرمنی آ کر اپنی مرضی سے کہیں بھی اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے پاس رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ دیگر ممالک کے پناہ گزینوں کو طویل عرصے تک مہاجرین کے لیے قائم کردہ مراکز ہی میں رہنا پڑتا ہے۔ پولات نے جرمن پبلک براڈکاسٹر ڈوئچ لینڈ فُنک کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے قریب 30 فیصد پناہ گزینوں کے رشتہ دار بھی پہلے ہی سے جرمنی میں موجود ہیں۔ ملٹن برگ میں اس تجویز پر اتفاق رائے موجود ہے۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اس بات کا ثبوت ہونا چاہیے کہ متعلقہ رشتہ دار یا دوست کے پاس رہائش فراہم کرنے کے لیے مناسب جگہ بھی موجود ہو۔

Published: undefined

بیلےفَیلڈ کے میئر کلاؤزن کے مطابق یوکرینی اور دیگر مہاجرین کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کے لیے صرف رہائش ہی نہیں بلکہ کئی دیگر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’فرسٹ اور سیکنڈ کلاس سسٹم بنانا احمقانہ بات ہے۔ ہمیں اپنے سماجی نظام کے ساتھ ساتھ تعلیم اور انضمام کے مواقع کی فراہمی کو بھی جرمنی آنے والے ہر شخص کے لیے یقینی بنانا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

ان کے خیال میں اس میں پناہ گزینوں پر طویل مدت کے لیے کام کرنے پر عائد پابندی ختم کرنا چاہیے اور پناہ کی درخواستیں نمٹانے کا طویل طریقہ کار بھی بہتر بنانا چاہیے۔ جرمنی کے دیگر شہروں کی طرح بیلےفَیلڈ میں بھی ہنر مند افراد کی کمی ہے۔ کلاؤزن کے مطابق پناہ گزینوں کے جلد سماجی انضمام اور انہیں پیشہ وارانہ تربیت دینے میں سب ہی کا فائدہ ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined