سماج

یوکرین جنگ: طالب علم اپنے مستقبل کے لیے پریشان

روس کے یوکرین پر حملے کے باعث سینکڑوں پاکستانی طلباء کو واپس آنا پڑا تھا۔ یہ اسٹوڈنٹس اب نہ واپس جا پا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخلے مل رہے ہیں۔

یوکرین جنگ: پاکستانی طالب علم اپنے مستقبل کے لیے پریشان
یوکرین جنگ: پاکستانی طالب علم اپنے مستقبل کے لیے پریشان 

گزشتہ سال بیس سالہ فاطمتہ الزہرا گائناکولوجسٹ بننے کے لیے یوکرین گئی تھیں۔ انہیں معلوم نہیں تھا روسی حملے کے باعث ان کا تعلیمی پلان بری طرح متاثر ہو جائے گا۔ فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری والدہ نے میرے تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے اپنی گاڑی فروخت کر دی۔‘‘ فاطمہ کے مطابق ان کے اہل خانہ اب تک ان کی تعلیم پر قریب دس ہزار ڈالر یا قریب بیس لاکھ پاکستانی روپے خرچ کر چکے ہیں۔ جب یوکرین میں جنگ شروع ہوئی تو فاطمہ پاکستانی حکومت کے وطن واپسی پروگرام کے تحت اپنے گھر پہنچ گئیں۔ لیکن اب انہیں معلوم نہیں کہ وہ کب یوکرین واپس جا سکیں گی۔

Published: undefined

پاکستانی انتظامیہ کی اسٹوڈنٹس کو صبر کرنے کی تلقین

فاطمہ واحد پاکستانی طالبہ نہیں جن کا تعلیمی مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق قریب ایک ہزار ایسے طالب علم ہیں جنہیں اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔

Published: undefined

میڈیکل اسٹوڈنٹ محمد عظیم ارشاد کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے عمر بھر کی کمائی ان کی تعلیم پر لگا دی۔ ارشاد کے بقول پاکستانی حکومت کو اس صورت میں ان کی مدد کرنا چاہیے۔

Published: undefined

سرکاری افسر جلال الدین کا کہنا ہے کہ اس موجودہ صورتحال میں کچھ زیادہ نہیں کیا جاسکتا، ''ہم ابھی طلباء کو یوکرین نہیں بھیج سکتے۔ انہیں تھوڑا صبر کرنا ہو گا۔ زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔‘‘ جلال الدین کے مطابق چھ ماہ یا ایک سال تک انتظار کرنا کوئی بہت بڑی بات نہیں۔ لیکن ارشاد کے مطابق اگر حکومت نے کچھ نہ کیا تو ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی۔ '' مجھے نہیں لگتا کہ یوکرین کا مسئلہ اتنی جلد حل ہو گا لہٰذا حکومت کو ہمیں پاکستانی میڈیکل اسکولز میں داخلہ دلانا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

پاکستان یا قریبی ممالک کے میڈیکل اسکولوں میں داخلے؟

پاکستان میڈیکل کمیشن کے نائب صدر، علی رضا کا کہنا ہے کہ متاثرہ طلباء کو پاکستانی میڈیکل کالجوں کے انٹرنس ٹیسٹس دینے چاہییں یا پھر وہ قریبی ممالک کے میڈیکل کالجوں میں جا سکتے ہیں۔ لیکن ارشاد اس تجویز سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے، '' یہ ٹیسٹ ان طلباء کے لیے ہیں جو اپنی مرضی سے ملک واپس آئے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی نے تین سال ہنگری میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہ پاکستان آگئے۔ تو یہ ٹیسٹ ایسے طلباء کے لیے ہیں۔‘‘

Published: undefined

ارشاد نے بتایا کہ ایسے ٹیسٹس کی تیاری کے لیے چھ سے سات ماہ کا وقت چاہیے۔ '' ہم بہت برے حال میں اس سال مارچ میں واپس پاکستان پہنچے، ہم کیسے جون میں یہ ٹیسٹ دے سکتے ہیں؟‘‘

Published: undefined

ارشاد کہتے ہیں کہ حکومت کا تجویز کردہ پلان بہت مہنگا بھی ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں انہیں سالانہ گیارہ ہزار ڈالر تک ادا کرنا ہوں گے جب کہ یوکرین میں وہ سالانہ 4900 ڈالر دے رہے تھے۔

Published: undefined

یوکرین سے واپس آنے والی پاکستانی طلباء کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ انٹرنس ٹیسٹ دینے کی شرط ختم کی جائے اور انہیں کم فیس کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined