سماج

بلوچستان: سیلاب، حکومت اور سیاست دانوں کے بیچ پھنسے متاثرین

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان معاشی طور پر بہت پسماندہ ہے اور اس صوبے کے کئی سیلاب زدہ علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں سیلاب کے ایک ماہ بعد متاثرین کو ابھی تک کسی قسم کی کوئی حکومتی امداد نہیں ملی۔

بلوچستان: سیلاب، حکومت اور سیاست دانوں کے بیچ پھنسے متاثرین
بلوچستان: سیلاب، حکومت اور سیاست دانوں کے بیچ پھنسے متاثرین 

صلاح الدین کا تعلق بلوچستان کے علاقے نوشکی سے ہے اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت دور دراز کے دیہی علاقوں، جو افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہیں، میں امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہاں متاثریں کس قدر بے یار و مددگار ہیں، اس بارے میں صلاح الدین بتاتے ہیں، ''میں نے پانی مانگا تو وہ اتنا گدلا تھا کہ میرا جی متلانے لگا۔ لیکن علاقے کے مکینوں کے مطابق وہ پہلے بھی وہاں موجود اسی جھیل کا پانی پی رہے تھے، جو خشک ہونے والی تھی لیکن اب سیلاب کے باعث دوبارہ بھر گئی ہے۔ سیلابی پانی کے ساتھ مٹی بھی آئی تھی، تو پانی زیادہ گدلا لگ رہا تھا۔ میرے سامنے بیٹھے شخص نے اپنا جملہ مکمل کیا اور پانی کا وہ گلاس خود ہی پی لیا کیونکہ وہاں پینے کے لیے بس اسی جھیل کا پانی ہی میسر تھا۔‘‘

Published: undefined

صلاح الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے میں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بچے ہیضے جیسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور کھانے پینے کا سامان بھی نہ ہونے کے برابر ہے، ''لوگوں میں غذائیت کی کمی اس قدر شدید ہو چکی ہے کہ کمزوری کے باعث کچھ لوگ تو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں۔‘‘

Published: undefined

کچھ اسی طرح کی صورت حال جنید جمالی نے بھی بتائی، جو بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب سے بلوچستان میں سیلاب آیا ہے، ان کی آنکھوں کے سامنے 22 اموات ہوئیں لیکن حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی امداد ان کے علاقے تک نہیں پہنچی۔

Published: undefined

انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا، ''ہیلی کاپٹر سے پانی میں آٹا پھینک کر حکومت متاثرین کی کیا اور کیسی مدد کر رہی ہے؟ یہ طرز عمل تو بلوچ روایات کے بھی برعکس ہے۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم اپنے لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتے ، ہمارے پاس موٹر سائیکلیں ہیں، ہم چاہیں تو یہاں سے جان بچا کر چلے جائیں لیکن اگر ہم ان لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں، جن کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی تعلیم، تو یہ تو مر جائیں گے۔ بلوچستان کے ان شہریوں کا تو کوئی حال تک پوچھنے نہیں آئے گا۔‘‘

Published: undefined

سیلاب کے بعد سے اب تک بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے بھر کو گیس اور بجلی کی فراہمی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور مواصلاتی نظام بھی درہم برہم ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے متاثرین کی فضائی مدد میں ناکامی کی وجوہات کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔

Published: undefined

ورلڈ فوڈ پروگرام کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباﹰ 33 ملین شہری حالیہ سیلابوں سے متاثر ہوئے۔ چالیس ہزار خاندانوں کو فوری خوراک اور رہائش کی ضرورت ہے۔ ان میں سے 60 فیصد بلوچستان میں ہیں اور ہر 10 میں سے تین اموات اسی صوبے میں ہوئیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب قریب ڈیڑھ ہزار ہو چکی ہے۔

Published: undefined

سیلاب، حکومت اور سیاست دان

جنید جمالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں لوگ سیف اللہ مگسی کینال کے علاقے میں بے یار و مددگار بیٹھے ہیں کیونکہ ان کا پورا علاقہ تاحال زیر آب ہے، ''اب بھی ان 12 دیہات میں پانچ فٹ تک پانی کھڑا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ سیلاب کے بعد صرف پچھلے ایک ہفتے میں ہی وہاں پانچ اموات ہوئیں۔ ان میں سے دو حاملہ خواتین تھیں، جن کا زچگی کے دوران انتقال ہو گیا جبکہ ان پانچ میں سے تیسری موت ایک نومولود بچی کی تھی۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں ملیریا اور کئی جلدی بیماریاں بھی پھیل چکی ہیں۔‘‘

Published: undefined

جعفرآباد بلوچستان کا ایک ایسا قصبہ ہے جو سندھ اور بلوچستان کو ملاتا بھی ہے۔ یہ علاقہ سیلاب کے باعث دیگر علاقوں سے کٹ گیا۔ تمام رابطہ سڑکیں سیلاب میں بہہ گئیں۔ وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سنگین حالات کے باوجود تاحال ان تک کوئی بھی حکومتی امداد نہیں پہنچی۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں اس سے پہلے بھی تین بار سیلاب آ چکا ہے اور جنید جمالی کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ صوبوں کے درمیان نہری پانی کی تقسیم میں بے قاعدگیاں بھی ہیں۔

Published: undefined

جنید جمالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس علاقے میں یہ پہلا سیلاب نہیں ہے۔ یہاں 2007، 2010 اور 2012 مین بھی سیلااب آئے تھے۔ بار بار کے ان سیلابوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مون سون کی بارشوں کے بعد آر بی او ڈی کینال میں پانی کی سطح بہت اونچی ہو جاتی ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے کینال میں آبی بہاؤ کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو بلوچستان کے یہ رہائشی علاقے زیر آب آ جاتے ہیں۔ اس کے لیے صوبائی حکومتوں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالنا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

بلوچستان ایک بار پھر نظر انداز

صوبہ بلوچستان میں حالیہ سیلابوں کے بعد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انسانی اموات کی تعداد ڈھائی سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ جنید جمالی کے مطابق ایسی اموات کی حقیقی تعداد ڈھائی سو سے کہیں زیادہ ہے۔ بلوچستان پاکستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں عوام کے پاس وسائل بہت کم ہوتے ہیں اور خواندگی کی شرح تو ویسے بھی بہت کم ہے۔

Published: undefined

بلوچستان کے حقوق پر بات کرنے والی ایکٹیوسٹ نور مریم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ میڈیا رپورٹنگ کے سلسلے میں بھی بلوچستان کو اکثر امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں پرتشدد واقعات کو بھی حکومت اور میڈیا دونوں کی جانب سے زیادہ تر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حالیہ سیلابی تباہی کی میڈیا کوریج بھی بہت ہی کم رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے صوبے کے عوام کو جو امداد دی بھی جا رہی ہے، وہ نہایت ناکافی ہے۔

Published: undefined

انہوں نے کہا، ''اگرچہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی بہت زیادہ ہے اور پاکستان کے بیشتر دیہی علاقے سیلاب زدہ ہیں، تاہم اس وقت بھی حکومت کی امدادی کوششوں سے متعلق ترجیحات واضح ہیں۔‘‘ صلاح الدین کے مطابق حکومت بلوچستان میں امدادی کام کر تو رہی ہے، لیکن صرف ان علاقوں میں جو میڈیا کی نظروں میں ہیں اور جہاں حکومت کو سیاسی فائدے حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔‘‘

Published: undefined

صوبائی وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وقتاﹰ فوقتاﹰ صوبے میں جاری ریلیف ورکس کے بارے میں عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبے میں جہاں زمینی راستوں سے امدادی کارروائی ممکن نہیں، وہاں فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے امداد پہنچائی جا رہی ہے۔

Published: undefined

عوام کی نظریں غیر سرکاری امدادی تنظیموں پر

صلاح الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچستان میں حکومتی اداروں کی امدادی کارروائیاں ابھی تک سبھی علاقوں تک نہیں پہنچ پائیں اور اسی لیے لوگ اب بھی غیر سرک‍اری تنظیموں کی طرف سے دی جانے والی امداد پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''جتنا نقصان ہوا ہے، اس کے حساب سے تو یہ امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ نوشکی کے جس علاقے سے میرا تعلق ہے، وہاں حالیہ بارشوں کے نتیجے میں دو بار سیلابی ریلے آئے اور تین ہزار کے قریب شہری بری طرح متاثر ہوئے۔ یہ متاثرین ابھی تک امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومتی امداد شاید کبھی نا کبھی ان تک پہنچ ہی جائے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined