سماج

آسٹریلین سینیٹ کی پہلی باحجاب رکن فاطمہ پیمان کون ہیں؟

فاطمہ پیمان صرف ستائیس برس کی عمر میں آسٹریلوی پارلیمان کے ایوان بالا کی پہلی باحجاب رکن بن گئی ہیں۔ انہوں نے آسٹریلیا کی تاریخ میں سب سے کم عمر سینیٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔

آسٹریلین سینیٹ کی پہلی باحجاب رکن فاطمہ پیمان کون ہیں؟
آسٹریلین سینیٹ کی پہلی باحجاب رکن فاطمہ پیمان کون ہیں؟ 

فاطمہ پیمان کا آسٹریلیا کی پہلی حجاب پہننے والی رکن پارلیمان بننے کی طرف سفر اس وقت شروع ہوا جب یونیورسٹی میں ایک ہم جماعت نے ان کے ہیڈ اسکارف کا مذاق اڑایا تھا۔ فاطمہ شعبہ دوا سازی کی طالبہ رہی ہیں۔ انہوں نے بچپن میں اپنی فیملی کے ساتھ افغانستان سے جان بچا کر آسٹریلیا پہنچنے کے بعد ہمیشہ یہی محسوس کیا تھا کہ آسٹریلوی معاشرہ انہیں پوری طرح قبول کرتا ہے۔ تاہم جب یونیورسٹی کے ایک ٹیوٹوریل کے دوران ان کے ہیڈ اسکارف پر انہی کے ایک ساتھی نے ان کا تمسخر اڑایا، تو انہیں احساس ہوا کہ آسٹریلوی معاشرے میں بھی ایسے عناصر ہیں، جو عدم روا داری کا شکار ہیں، تو انہوں نے سیاسی طور پر فعال ہو جانے کا فیصلہ کر لیا۔

Published: undefined

فاطمہ کا پرجوش خطاب

مغربی آسٹریلیا کے ایک حصے سے نئی سینیٹر منتخب ہونے والی فاطمہ پیمان نے منگل کے روز اپنی اولین تقریر میں اپنے خاندان کی ہجرت کی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی فیملی افغانستان سے بھاگ کر پاکستان گئی تھی۔ بعد ازاں اس خاندان نے آسٹریلیا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور شہر پرتھ میں آ کر وہاں آباد ہو گیا۔ فاطمہ کے والد عبدالوکیل پیمان 1999ء میں پاکستان سے رخصتی کے بعد ایک کشتی کے ذریعے آسٹریلیا آئے تھے، جہاں انہوں نے چار سال تک بہت محنت کی اور اس وقت کا انتظار کرنے لگے کہ ان کے اہل خانہ بھی آسٹریلیا پہنچ جائیں اور سارا خاندان دوبارہ مل کر زندگی بسر کرنے لگے۔

Published: undefined

فاطمہ پیمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کے والد نے آسٹریلیا میں امتیازی سلوک کا سامنا کیا، انہیں ان کی محنت کی بہت کم اجرت دی جاتی تھی اور روزگار کے حصول کے سلسلے میں بھی انہیں عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم والد کی محنت اور قربانیوں کی وجہ سے فاطمہ کو ایک خوشحال بچپن ملا۔ انہوں نے آسٹریلین سینیٹ میں اپنی پہلی تقریر میں کہا،'' مجھے پہلی بار اپنے اجنبی ہونے یا اس معاشرے میں تسلیم شدہ نہ سمجھے جانے کا تجربہ یونیورسٹی میں خود میرے ایک ساتھی طالب علم کی طرف سے میرے حجاب کا مذاق اڑائے جانے کی وجہ سے ہوا۔‘‘ ستائیس سالہ پیمان نے مزید کہا، ''میں نے پروان چڑھتے ہوئے خود کو کبھی بھی مقامی بچوں سے مختلف محسوس نہیں کیا تھا۔ پرتھ کا علاقہ میرے لیے میرے گھر کی طرح تھا۔ آپ کا گھر وہاں ہوتا ہے جہاں آپ کا دل ہو۔ اور میرا دل میری فیملی کے ساتھ تھا۔‘‘

Published: undefined

فاطمہ پیمان نے ملکی سینیٹ میں اپنے احساسات کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے کہا، ''میں نے خود کو کچھ مختلف یا عجیب محسوس نہیں کیا، میں نے اپنا آپ کسی بھی دوسرے آسٹریلوی بچے کی طرح محسوس کیا، پرتھ کے شمالی مضافات میں پلی بڑھی۔ یونیورسٹی تک پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی رہی اور معاشرے کی ایک مفید رکن بننے کی امید میں اپنا سفر جاری رکھا۔ لیکن آئے دن 'جہاں سے آئی ہو، وہاں واپس جاؤ‘ جیسے تبصروں یا انتہا پسندانہ رویوں نے مجھے یہ محسوس کرنے پر مجبور کر دیا کہ میرا تعلق اس معاشرے سے نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

سینیٹر فاطمہ پیمان نے منگل کی رات پارلیمنٹ میں اپنی اولین تقریر کے دوران خاص طور پر اپنا حجاب پہن رکھا تھا اور وہ اپنے مرحوم والد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آبدیدہ بھی ہو گئیں۔

Published: undefined

والد کی کہانی

فاطمہ نے سینیٹر بننے کے بعد اپنے والد سے متعلق کچھ نئی کہانیاں بھی سنائیں اور نئے انکشافات بھی کیے۔ ان کے والد 2018 ء میں خون کے سرطان کا شکار ہو کر انتقال کر گئے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو سینیٹر بنتا نہ دیکھ سکے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر محض 47 سال تھی۔ فاطمہ نے اپنے والد کے آسٹریلیا آنے کے گیارہ روزہ سفر کی کچھ تکلیف دہ تفصیلات کا بھی ذکر کیا۔ فاطمہ کے بقول، ''میری ماں بے چینی اور منفی خیالات کے سیلاب میں ڈوبی رہتی تھی، ہر لمحے اس انتظار میں کہ میرے والد کے خیریت سے آسٹریلیا پہنچنے کی کوئی خبر آئے۔ چار ماہ کے انتظار کے بعد ہمیں میرے والد کے آسٹریلیا پہنچنے کی خوش خبری ملی تھی۔‘‘

Published: undefined

فاطمہ اپنے والد عبدالوکیل پیمان، والدہ اور تین چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ جب آسٹریلیا پہنچی تھیں، تو اس وقت ان کی عمر آٹھ برس تھی۔ پرتھ میں اسلامی کالج میں پانچویں جماعت میں فاطمہ کا داخلہ ہوا۔ فاطمہ کے دادا افغانستان میں کئی سال پہلے پارلیمانی رکن رہ چکے تھے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کا پورا خاندان ملک چھوڑ کر پاکستان چلا گیا تھا۔

Published: undefined

آسٹریلیا پہنچنے کے بعد امیگریشن کے سلسلے میں زیر حراست رہنے کے دور میں فاطمہ کے والد نے بہت سخت مشقت کی تاکہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔ انہوں نے کچن میں ہیلپر کا کام کیا، ٹیکسی چلائی اور سکیورٹی گارڈ کے طور پر کئی کئی گھنٹوں کی سخت ڈیوٹی بھی دیتے رہے۔ فاطمہ پیمان پرتھ کے اسلامی کالج کی ہیڈ گرل تھیں، جہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔

Published: undefined

سیاسی نظام پر تنقید

فاطمہ نے جب سینیٹ سے خطاب کیا، اس وقت ان کی والدہ اور دو بھائی، ایک بہن اور بھتیجے بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں شامل ہونا دراصل نوجوانوں کے لیڈر شپ گروپس کا حصہ بننے، پولیس ایڈوائزری گروپس اور مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشنوں میں شمولیت کا محرک بھی تھا۔ ان کا کہنا تھا، ''میں نے تبدیلی کا حصہ بننے کی امید میں رضاکارانہ طور پر کام شروع کیا تاکہ مجھے معاشرے میں اچھائی پھیلاتے ہوئے دیکھا جائے تو شاید مجھے اس قوم کا ایک برابر کا فرد تسلیم کر لیا جائے۔‘‘ فاطمہ کے مطابق، ''ایک پناہ گزین کی بیٹی کے طور پر جو ایک محفوظ اور بہتر مستقبل کے خواب لے کر اس سرزمین پر آئی تھی، میں نے نظام کو چیلنج کرنے اور یہ دیکھنے کی ہمت کی کہ میں کس حد تک تبدیلی لا سکتی ہوں۔‘‘

Published: undefined

تاہم انہوں نے کہا کہ آسٹریلوی سیاست حتیٰ کہ پارلیمانی ایوان بالا بھی اکثر 'اجنبیوں سے بیزاری‘ اور نسلی اور مذہبی خوف سے متاثر نظرآتا ہے۔ فاطمہ پیمان نے اپنے ساتھی ممبران پارلیمنٹ کو چیلنج کیا کہ وہ تعصب، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کو ختم کریں اور ان امور پر صرف لب کشائی ہی نہ کریں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined