سماج

پاکستان: بگڑتی معیشت کا شاخسانہ، سفید پوش طبقہ گداگری پر مجبور

گداگروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر ان کے خدوخال اور مانگنے کے طریقوں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں بلکہ ان میں کثیر تعداد سفید پوش بزرگ خواتین کی ہے۔

پاکستان: بگڑتی معیشت کا شاخسانہ، سفید پوش طبقہ گداگری پر مجبور
پاکستان: بگڑتی معیشت کا شاخسانہ، سفید پوش طبقہ گداگری پر مجبور 

اسلام آباد میں سرخ، پیلے، ہرے ٹریفک کے اشارے ہوں یا آٹا، چینی،اور دالیں بیچتے کریانہ اسٹور ہوں، بس نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ضرورت ہے، یوں لگتا ہے جیسے ہر طرف بھکاریوں کا سیلاب سا امڈ آیا ہو جن میں زیادہ تر سفید پوش معمر افراد اپنا منہ ڈھانپے مہنگائی میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ پھیلائے اور اپنی شناخت دنیا سے چھپاتے دکھائی دیتے ہیں۔

Published: undefined

ایسے ہی ایک کریانہ اسٹور جو کہ کراچی کمپنی میں واقع ہے، وہیں فائزہ بھی سامان سے لدی ٹرالی گاڑی کی طرف دھکیل رہی تھیں جب چھ سے آٹھ لوگوں نے باری باری اس سے مدد کے لیے ہاتھ آگے پھیلایا تو ایک خوف نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی وہ اس خوف سے کسی حد تک خود کو آزاد محسوس کر پائیں۔

Published: undefined

شوہر کے وجہ پوچھنے پر انہوں نے کہا، ''جس طرح یہ مانگنے والے سامان کی ٹرالی کو دیکھ رہے تھے مجھے یوں لگا کہ ہم پر حملہ کر کے سامان نہ چھین لیں۔‘‘ حالانکہ فائزہ اسٹور جانے سے پہلے حسب توفیق دو سے تین بزرگ افراد کی مالی مدد کر چکی تھیں مگر پھر بھی سامان چھن جانے کے خوف کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا بھی خوف تھا کہ کہیں اللہ اس سے ناراض نہ ہو جائے کہ وہ ان کی کچھ داد رسی نہ کرپائیں۔

Published: undefined

'پیشہ ور بھکاری نہیں، مگر بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا'

اسی سٹور کے باہر سائیڈ پر ایک سفید ریش بزرگ بھی ہاتھ میں چند رومال تھامے، اپنے چہرے کو ماسک اور سر کو سفید اور گلابی رنگ کے چیک والے رومال سے ڈھانپے کسی مہربان نظر کے منتظر تھے جو ان کی طرف مدد کے لیے بڑھے اور ان کو خود ہاتھ پھیلانے آگے نہ جانا پڑے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے متین بابا (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ وہ بری امام (اسلام آباد کے پہلو میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں) میں رہتے ہیں۔ ان کے چھ بچے ہیں، جن میں چار شادی شدہ ہیں اور دو بیٹیاں ابھی گھر میں ہیں۔ "بیٹے اچھے ہیں مگر گزر بسر نہیں ہو رہا مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ میں کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں ہوں مگر اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا،" یہ کہتے ہوئے اُن کے گلے میں پھنسے آنسوؤں نے اُن کی آواز کو دبا دیا اور چہرے پہ لگا ماسک آنسوؤں سے بھیگ گیا۔

Published: undefined

بڑھتی ہوئی مہنگائی کی گونج کو ہم ہر طرف سن رہے ہیں مگر اب اس کے اثرات غریب طبقے کی زندگیوں پر بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ مانگنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اورجب ان کے خدوخال اور مانگنے کے طریقوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی پیشہ ور یا روایتی بھکاری نہیں ہیں۔

Published: undefined

ان لوگوں میں کثیر تعداد بزرگ خواتین و حضرات کی ہے اور یہ لوگ اپنا چہرہ ماسک یا دوپٹے سے چھپا کر رکھتے ہیں تاکہ کہیں کوئی جاننے والا نہ مل جائے۔ کسی کے ہاتھ میں دو چار رومال، پین، مسواک یا نمکو کے پیکٹ دکھائی دیتے ہیں جس کو بیچنے کے بہانے وہ مدد کا سوال کرتے ہیں۔ متین بابا نے بھی یہی بتایا تھا کہ وہ گھر سے رومال بیچنے کا کہہ کر نکلتے ہیں اور کسی کو بھی ان کے مانگنے کے بارے میں علم نہیں ہے۔

Published: undefined

مہنگائی اپنے عروج پر

پاکستان میں ہر چڑھتے دن کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے جس نے متوسط اور غریب طبقے کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر محفل مہنگائی کے تزکرے سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی ہے اور اوپر سے بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔

Published: undefined

اسی بارے میں جب ماہر معاشیات محمد ناصر، جو کہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن ہیں، سے بات کی گئی تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مہنگائی کی شرح تو چھ تا ستائیس فیصد ہے مگر ہمیں گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ "فوڈ انفلیشن (کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی) جو براہ راست غریب اور متوسط طبقے کو متاثر کرتی ہے وہ اس وقت پاکستان میں تاریخ کی بلند ترین سطح تقریباﹰ چالیس فیصد تک جا پہنچی ہے۔ غریب اپنی آمدن کا پچاس فیصد حصہ اپنے کھانے پینے پر لگاتا ہے جو کہ اس دور میں ایک سو فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ اب وہ باقی اشیا تعلیم اور صحت جیسی ضرورتوں کو نظر انداز کر کہ اپنا پیٹ پالتا ہے۔"

Published: undefined

بے روزگاری میں اضافہ

ماہر معاشیات ناصر کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو مہنگائی اپنے عروج پر ہے دوسری طرف پاکستان کے ابتر معاشی حالات کی وجہ سے بے روزگاری بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ جو ایک بار پھر غریبوں کو ہی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر انکم جنریشن کے لیے نئے نئے ٹیکس لگا رہا ہے جو کہ مہنگائی کی آگ میں ایندھن کا کام کر رہے ہیں مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں اور ڈیفالٹ کا خطرہ الگ سر پر منڈلا رہا ہے۔

Published: undefined

انہوں نے ایک اور اہم نقطے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہ معاشی حالات اور بڑھتی مہنگائی متوسط طبقے کو بھی خط غربت سے نیچے دھکیلتے ہوئے امیر اور غریب دو طبقوں میں تقسیم کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سال مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا اور ہمیں ہر طرف لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے ہاتھ پھلائے نظر آئیں گے۔

Published: undefined

سماجی بہبود کے پروگرامز کی ضرورت

حالیہ حکومت نے عمران خان کی حکومت میں غریبوں کے لیے قائم کیے گئے کھانے پینے کی اشیا کے اسٹالز بھی تجاوزات کا لیبل لگا کر رات کے اندھیرے میں گرا دیے۔ اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس معاشی ایمرجنسی صورتحال میں سخت انتظامی امور پر نرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ "اب یہ لوگ جو محنت کر کہ اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے تھے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں گے۔"

Published: undefined

انہوں نے اس صورتحال میں غریبوں کو ریلیف فراہم کرنے کے بارے میں کہا کہ حکومت کو بینظیر انکم سپورٹ جیسے مزید سماجی بہبود کے پروگرامز شروع کرنے چاہییں اور جب تک اس معاشی ایمرجنسی کی صورتحال سے پاکستان نکل نہیں آتا، عارضی بنیادوں پر متوسط طبقے سے مزید حقدار افراد کو ان پروگرامز میں شامل کرنا چاہیے تا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہوں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined