18 سالہ زینب آج بہت خوش تھی‘ وہ خوش کیوں نہ ہوتی آج اس کا شریک حیات ان کی پانچ سالہ شادی شدہ زندگی میں پہلی مرتبہ اسے پکنک پر لے جارہا تھا۔ پانچ ماہ کی حاملہ زینب نے اپنے تین سالہ بیٹے کو خوب اچھی طرح سے تیار کیا اور وہ گوادر کے ایک خوبصورت پکنک پوائنٹ کوہ باطل پر سیر کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔
Published: undefined
زینب کا شوہر ثناءاللہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا لیکن زینب کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کم عمر زینب کی شادی جب ثناءاللہ سے کروائی جارہی تھی تو اس وقت سے زینب یہ جانتی تھی کہ ثناءاللہ نشے کا عادی ہے۔ ثناءاللہ کے گھر والوں نے اس کی شادی اسی وجہ سے کروائی تھی کہ شاید وہ سدھر جائے گا مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
Published: undefined
نشے کے عادی ثناءاللہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے زینب کو پہاڑ سے دھکا دے دیا اور اسے ادھ مرا جان کر وہاں سے بھاگ گیا۔ سیر کی غرض سے آئے ہوئے لوگوں نے زخموں سے چور زینب کو ہسپتال منتقل کیا۔ یہ سارا منظر زینب اور ثناءاللہ کے معصوم بچے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ گو کہ زینب کی زندگی تو بچ گئی مگر وہ ایک زندہ لاش کی مانند ہے، جس کے جسم کی ہڈیاں کئی جگہوں سے ٹوٹ چکی ہیں۔
Published: undefined
یوں تو غیرت کے نام پر قتل'ونی کے واقعات‘ تیزاب پھینکنے اور جنسی تشدد کے تمام واقعات کا کوئی واضح ریکارڈ ہی موجود نہیں لیکن کورونا کی وباءکے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ذہنی دباﺅ کے علاوہ دیگر کئی ایسے محرکات ہیں، جن کی بناءپر پاکستان بالخصوص بلوچستان میں عورتوں پر کیے جانے والے تشدد کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے۔
Published: undefined
محمد علی بلوچستان کے علاقے آواران سے تعلق رکھتا ہے۔ بیروزگاری اور صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث اپنے چھ بچوں سمیت لسبیلہ کے شہر (حب) منتقل ہو گیا۔ انڈسٹریل زون میں نوکری کی خاطر ہر چھوٹی بڑی فیکٹری اور کارخانوں کا رخ کیا نوکری نہ ملنے کے سبب کسی نے مشورہ دیا کہ چند روزہ تبلیغ پر چلا جائے اپنے چھ بچوں کو ان کی والدہ کے ساتھ بے یار و مددگار چھوڑ کر محمد علی بلوچستان سے پنجاب کی جانب کوچ کر گیا۔
Published: undefined
تین ماہ بعد واپسی پر محمد علی کو پتہ چلا کہ اس کی بیوی گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہے۔ اس موقع پر اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ قریب پڑی ہوئی اینٹ اس نے اپنی بیوی کے سر پر مار دی۔ کئی ماہ سے سرکاری ہسپتالوں میں رہنے کے بعد محمد علی کی زوجہ چل بسی اور محمد علی خود گڈانی سینٹرل جیل میں قید ہے۔ڈی ڈبلیو اردو نے محمد علی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اس کا ہر سوال پر ایک ہی جواب ہوتا تھا،'' غربت نے مجھے پہلے اپنے گھر سے ہجرت پر مجبور کیا اور پھر اسی پریشانی میں میں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔‘‘ آج محمد علی کے بچے بھیک مانگ کر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
Published: undefined
بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال نے جہاں لوگوں سے ان کا روزگار چھین لیا ہے وہیں معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ ذہنی مسائل سے دوچار ہے۔
Published: undefined
2020ء میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک جگہ ان کا گھر ہوتا ہے۔ عالمی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں شادی شدہ خواتین پر بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کے واقعات میں غربت ایک اہم وجہ ہے۔عورت فاﺅنڈیشن بلوچستان کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاﺅ الدین خلجی کے مطابق اس سال صرف کوئٹہ میں خواتین پر کیے گئے تشدد اور اموات کی تعداد 22 سے زیادہ ہے۔
Published: undefined
علاﺅ الدین خلجی نے ڈی ڈبلیو کو بات کرتے ہوئے کہا،''یہ صرف وہ کیسز ہیں جو کہ رپورٹ کیے گئے ہیں۔ کئی کیسز ایسے بھی ہیں، جہاں خاندان والے بدنامی کی وجہ سے واقعات کو منظر عام پر ہی نہیں لاتے۔‘‘ علاﺅ الدین خلجی کے مطابق قبائلی نظام میں یہ بہت عام ہے کہ کس طرح کیسز کو رپورٹ ہونے سے چھپایا جا سکتا ہے،''بعض اوقات جس خاتون پر تشدد کیا جاتا ہے وہ اس بات سے بھی لاعلم ہوتی ہے کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
عورت فاﺅنڈیشن کے علاﺅ الدین خلجی کہتے ہیں،'' ایک مرتبہ کوئٹہ کے ایک مقامی ہسپتال میں کیس اسٹڈی کے لیے ان کا جانا ہوا۔ وہاں ایک نوعمر شادی شدہ خاتون موجود تھی، جس کے جسم کی ہڈیاں کئی جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ہم نے اس خاتون سے درخواست کی کہ وہ اپنے شوہر کے خلاف کیس رجسٹرڈ کروائے۔ تو اس پر اس خاتون نے ہمیں جواب دیا کہ اس پر ہاتھ اٹھانا اس کے خاوند کا حق ہے۔‘‘
Published: undefined
کلثوم بلوچ ایک مقامی تنظیم ”راجی" کی روح رواں ہیں۔ یہ تنظیم انسانی حقوق خاص طور پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ کلثوم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہم نے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے کوشش کی کہ خواتین پر ہونے والے تشدد، غیرت کے نام پر ہونے والے قتل، خودکشی اور دیگر مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے قبائلی معاشرے میں رہنے والی عورت کو اس کے حقوق سے آگاہی دے سکیں‘‘۔ کلثوم کے مطابق یہ کام آسان نہیں آپ کو اپنے ہی اردگرد رہنے والوں سے اپنی آزادی اور اپنے وجود کو تسلیم کروانے کی ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے اور اکثر معاشرہ آپ کو ”باغی" تصور کرتا ہے۔
Published: undefined
بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں خواتین نے نہ صرف منشیات کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ اپنی جدوجہد کو اس قدر آگے بڑھایا کہ بلیدہ جیسے پسماندہ علاقے میں حکومت کو نشے کے عادی افراد کے لیے ادارہ قائم کرنا پڑا۔ گھریلو جھگڑوں اور ناچاقیوں کی اکثر دیگر وجوہات میں شوہر کا نشے کا عادی ہونا ایک اہم وجہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نہ صرف معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانے کے افراد بھی اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
جمیلہ (فرضی نام) کیچ تربت کی رہنے والی ہیں۔ جمیلہ کی شادی ایک سرکاری ملازم سے کرادی گئی تھی، جس نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ جمیلہ کے مطابق اس کا شوہر شادی سے پہلے نشے کا عادی تھا اور یہ بات جمیلہ کے گھر والوں کو شادی سے پہلے ہی معلوم تھی۔ چونکہ سرکاری نوکری رکھنا ایک بڑی بات تھی لہذا جمیلہ کی شادی وہاں کر دی گئی۔
Published: undefined
جمیلہ کا خاوند طویل عرصے سے نشے کی لت کی وجہ سے شدید ڈپریشن میں رہتا ہے۔ وہ جمیلہ پر شک کرتا تھا،مختلف قسم کے الزامات لگاتا تھا اور اپنی بیوی کے 'بے وفا‘ ہونے کے شواہد کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ طرح طرح کے امتحانات لیتا ہے، جس کے ذریعے وہ اس کی وفاداری کو جانچ سکے۔
Published: undefined
جمیلہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہمارے معاشرے میں طلاق کو برا سمجھا جاتا ہے۔ نشے کی لت اور اس ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے وہ اس ازدواجی رشتے سے منسلک ہے۔‘‘ ڈاکٹر شعیب کاشانی ایک ماہر نفسیات ہیں اور مکران میڈیکل کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر کاشانی کے مطابق چونکہ بلوچستان میں ہر قسم کا نشہ انتہائی عام اور سستا ہے لہٰذا بڑی تعداد میں لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان اور ایران کے ذریعے مختلف قسم کی نشہ آور اشیاء کی اسمگلنگ ایک عام سی بات ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے جرائم اور گھریلو تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
Published: undefined
نازیہ بلوچ آج جرمنی کے شہر بون میں رہتی ہیں اور مقامی برادری کے لیے کام کرتی ہیں۔ نازیہ کے مطابق وہ خود کو انتہائی خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ آج وہ جرمنی میں ہیں اور ایسی تمام عورتوں کے لیے کام کرتی ہیں، جو کسی نہ کسی طریقے سے گھریلو تشدد کا شکار بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں۔ نازیہ بلوچ کے مطابق ان کا اپنا ماضی بھی اسی قسم کے تشدد سے گھرا رہا ہے۔ ان کے چار بچے ہیں اور روزانہ ہونے والے جسمانی تشدد کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر چکی تھیں۔ نازیہ کے مطابق مغربی خواتین بھی گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں لیکن انہیں اپنی پسند ناپسند‘ قانونی طور پر مدد اور معاشرے میں اپنے وجود کو تسلیم کروانے کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے۔
Published: undefined
نازیہ بلوچ ہو یا گوادر کی رہنے والی زینب وہ اسے قدرت کا ایک انعام تصور کرتی ہیں کہ وہ آج زندہ ہیں۔زینب کا علاج کراچی میں ہوا اور اس کا شوہر اس وقت گوادر پولیس کی تحویل میں ہے۔ وہ زینب اور اس کے اہل خانہ کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ حوالات سے باہر نکل کر وہ انہیں دیکھ لے گا۔
Published: undefined
ان حالات میں ریاستی پالیسی بنانے والوں، میڈیا اور پورے معاشرے کی یہ ایک اہم ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined