سماج

کرسٹل میتھ نشہ ہے کیا؟ پاکستانی نوجوانوں میں اس کے استعمال میں اضافہ کیوں؟

کرسٹل میتھ انتہائی نشہ آور ہوتا ہے۔ عام طور پر ’آئس‘ کہلانے والا یہ نشہ امیر طلبا اور نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس نشے کا علاج پیچیدہ ہے اور بہت سے خاندان اس مسئلے کو خفیہ رکھتے ہیں۔

پاکستانی نوجوانوں میں کرسٹل میتھ کے استعمال میں اضافہ کیوں؟
پاکستانی نوجوانوں میں کرسٹل میتھ کے استعمال میں اضافہ کیوں؟ 

پاکستان میں اس کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نشے کی جانب زیادہ تر طلبا، تعلیم یافتہ اور اعلی طبقے کے افراد راغب ہو رہے ہیں۔

Published: undefined

پاکستان کی انسداد منشیات فورس کے مطابق ملک میں تقریبا 27 ملین افراد کسی نہ کسی طریقے سے منشیات کے مسئلے سے نبردآزما ہیں۔

Published: undefined

ماہرین کے مطابق تعلیم یافتہ طبقے میں اس نشے کی لت میں اضافہ تشویشناک ہے جبکہ اس کے علاج میں مدد فراہم کرنے کے حوالے سے ڈیٹا کی بھی کمی ہے۔ پاکستان میں بہت سے خاندان اس مسئلے کو خفیہ رکھتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنے تجربات بتانے کے لیے تیار ہیں۔

Published: undefined

پچیس سالہ صفیان علی کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ گھر کا خرچہ اٹھانے کے لیے اپنے والد کے ساتھ کام کرتا ہے۔ تاہم گزشتہ برس نومبر میں اسے دوستوں کے ذریعےکرسٹل میتھ آزمانے کا شوق ہوا۔ علی کا کہنا تھا کہ چاروں دوستوں نے ایک ساتھ اسے استعمال کرنا شروع کیا۔

Published: undefined

کرسٹل میتھ کو زبان پر رکھ کر، سگریٹ نوشی، سونگھنے یا انجکشن لگا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے اثرات میں جنسی کارکردگی میں بہتری، جوش و جذبات کے احساسات اور بھوک میں کمی شامل ہیں۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے علی کا کہنا تھا، ''پہلے پہل تو ایک عجیب و غریب احساس پیدا ہوتا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اس نے مجھے چڑچڑا اور بے چین کر دیا۔ اس سے ایک تو میری زندگی برباد ہو رہی تھی، دوسرا یہ میرے خاندان کے لیے بھی باعث بدنامی تھا۔‘‘

Published: undefined

جب علی کے گھر والوں کو پتا چلا تو انہوں نے اسے علاج کے لیے اسلام آباد کے ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ علی کا کہنا تھا،''میں وہاں تین ماہ سے زیادہ عرصے تک رہا۔ اب کافی حد تک بہتری آ چکی ہے اور میں بیرون ملک جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ لیکن میں اپنے دوستوں کے بارے میں اب پریشان ہوں جو علاج نہیں کروا سکے اور اب بھی اس جان لیوا لت میں مبتلا ہیں۔‘‘

Published: undefined

تعلمی ادارے کرسٹل میتھ کا گڑھ

Published: undefined

لاہور میں مقیم کلینیکل ماہر نفسیات نائلہ عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس نشے کا مسلسل استعمال کرنے والے خطرناک، پرتشدد اور جھگڑالو ہو جاتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''بدقسمتی سے اس نشے کا زیادہ استعمال پڑھی لکھی کلاس کر رہی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس نشے کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہم عمروں کا دباؤ ہے اور یہ مڈل اور اپر کلاس کے خاندانوں کے لیے ایک مسئلہ بن چکا ہے۔

Published: undefined

نائلہ عزیز نے سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں نارکوٹکس فورسز کے چھاپوں میں سب سے زیادہ کرسٹل میتھ تعلیمی اداروں سے برآمد ہوئی تھی۔ اسلام آباد کی ماہر نفسیات لبنیٰ ساجد کا کہنا ہے کہ کرسٹل میتھ کے ڈیلروں کے آپس میں خاصے رابطے ہیں۔ کچھ ڈیلر تعلیمی اداروں میں ہوتے ہیں اور انہیں نئے طلبا ملتے رہتے ہیں۔

Published: undefined

کرسٹل بیچنے والوں کی سزا دو سال قید یا بھاری جرمانہ ہے یا دونوں ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہیں۔ سزا منشیات کی مقدار کے حساب سے دی جاتی ہے۔ کراچی کے پولیس افسر جاوید اقبال کا کہنا ہےکہ کرسٹل میتھ کے استعمال میں پکڑے جانے پر سزاؤں کی شرح انتہائی کم ہے اور اس کا انحصار علاقے اور وہاں پر تعینات حکام سے بھی ہوتا ہے کہ وہ اس کیس سے کیسے نمٹتے ہیں۔

Published: undefined

ڈیٹا کی کمی علاج کو پیچیدہ بناتی ہے

Published: undefined

نائلہ عزیز کے مطابق کرسٹل میتھ کے صارفین کی حقیقی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان کے مطابق یہ نشہ کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن بہت سے لوگ اس لت کو خفیہ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اصل تعداد معلوم کرنا مشکل ہے۔

Published: undefined

ملک نذیر فیصل آباد میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کا مرکز چلاتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے خاندان بدنامی سے ڈرتے ہیں اور اس کو خفیہ رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میتھ استعمال کرنے والوں کی تعداد دسیوں ہزار میں ہو سکتی ہے۔

Published: undefined

جو اعداد و شمار موجود ہیں، ان کے مطابق خواتین اور مرد دونوں ہی اس نشے کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ قدامت پسند علاقوں میں متاثرہ خواتین کے لیے علاج کی سہولت تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے۔ خیبرپختونخوا میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کا مرکز چلانے والے ساجد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں تقریبا ہر روز ہی پریشان والدین کی کالیں آتی ہیں کہ آیا ان کے سینٹر میں خواتین کا علاج بھی کیا جاتا ہے؟

Published: undefined

ساجد اللہ خان کے مطابق وہ ایسے لوگوں کو اسلام آباد یا پھر پنجاب کے بحالی مراکز بھیج دیتے ہیں کیوں کہ خیبرپختونخوا میں منشیات کی عادی خواتین کے حوالے سے کھل کر کام کرنا مشکل ہے۔ پاکستان میں چونکہ نوجوان میتھ کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں، ایسے میں پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں خواتین کے والدین کے لیے پریشانیوں میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined

,
  • ’بی جے پی نے نوجوانوں کو دھوکہ دیا‘، کانگریس امیدوار آنند شرما نے کانگڑا میں کی انتخابی مہم کی شروعات

  • ,
  • لوک سبھا انتخاب 2024: ’زمین پر حالات بدل رہے ہیں...‘، جگنیش میوانی سے امئے تروڈکر کا انٹرویو