سماج

' کروز شپس‘ ہالینڈ میں مہاجرین کی عارضی پناہ گاہیں

ہالینڈ میں پہلے ہی رہائش کے مسائل ہیں اور یہ مسئلہ اب اس ملک میں آنے والے مہاجرین پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ ڈچ حکومت بڑے بحری جہازوں یا کروز شپس کے ذریعے رہائش کے اس مسئلے کو حل کر رہی ہے۔

' کروز شپس‘ ہالینڈ میں مہاجرین کی عارضی پناہ گاہیں
' کروز شپس‘ ہالینڈ میں مہاجرین کی عارضی پناہ گاہیں 

علی نے جب ایران سے ہجرت کی تھی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ یورپ میں ایک دن 'سلجا یوروپا‘ پر رہیں گے۔' سلجا یوروپا‘ چودہ عرشوں والا ایک بڑا بحری جہاز ہے۔ عام طور پر یہ تالین اور ہیلسنکی کے درمیان چلتا تھا۔ تاہم اب یہ ایمسٹرڈیم کے شمال میں لنگر انداز ہے۔ سلجا یوروپا شام اور یمن جیسے ممالک سے ہالینڈ آنے والے مہاجرین کی ایک عارضی پناہ گاہ ہے۔

Published: undefined

علی ایک ہفتے سے اس جہاز پر قیام پزیر ہیں اور آج انہیں پہلی مرتبہ اس جہاز کے عرشے سے اتر کر باہر جانے کی اجازت ملی ہے۔ موسم کے قدرے گرم ہونے کے باجود وہ جیکٹ پہنے ہوئے ہے۔ وہ دی ہیگ میں ایرانی حکومت کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ انہیں ساتھ ہی یہ ڈر بھی ہے کہ کہیں اس کی مظاہرے میں شرکت ایران میں موجود ان کے اہل خانہ کے لیے کوئی مصیبت نہ کھڑی کر دے۔

Published: undefined

پہلے استقبالیہ مرکز کے مخدوش حالات

بحری جہاز پر موجود دیگر مہاجرین کی طرح علی کو بھی پہلے 'تیر آپل‘ نامی استقبالیہ مرکز پر اپنا اندراج کرانا پڑا تھا۔اس مرکز پر حد سے زیادہ رش تھا، جس کے وجہ سے علی کو دیگر تقریباﹰ پانچ سو افراد کے ساتھ ایک ہفتے تک کھلے آسمان تلے سونا پڑا تھا۔ علی کے بقول، ''بارش ہو رہی تھی اور حالات سخت تھے۔ قریبی علاقوں کے لوگوں نے ہمیں ٹینٹ دیے، جس کے بعد ہم اپنی نیند پوری کر سکے اور آرام کر پائے۔ پھر جلد ہی ان چھوٹے خیموں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ وہاں موجود لوگ بیمار ہونا شروع ہو گئے تو پھر ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز جیسی غیر سرکاری تنظیمیں مدد کے لیے میدان میں اتریں۔‘‘

Published: undefined

علی کو ابھی فی الحال جہاز میں جو کیبن ملا ہے، اس میں ایک چھوٹا سا غسل خانہ ہے اور ایک بستر جہاں وہ آرام سے سو سکتےہیں۔ اس کے علاوہ اسے سلجا یوروپا پر گرم کھانا بھی مہیا کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

ہالینڈ میں رہائش کے مسائل

اس جہاز کو رہائش کے لیے استعمال کرنے سے تاہم ان خبروں کا خاتمہ ہو گیا، جن میں لوگوں کو تیر آپل میں زمین پر سوتے ہوئے دکھایا جاتا تھا۔ ڈچ حکومت نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ مہاجرین کے آنے سے رہائش کا مسئلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اس لیے انہوں نے پناہ گزین مراکز میں ان سترہ ہزار افراد سے بستر خالی کرا لیے، جن کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہو چکی تھی۔

Published: undefined

ساتھ ہی ڈچ حکومت نے دو بحری جہاز یا کروز شپس کرائے پر بھی لیے، جن میں ایک ہزار مہاجرین کو رکھا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

سوشل میڈیا پر تنقید

ان میں سے ایک بحری جہاز فیلسن نارڈ میں لنگر انداز ہے اور یہاں کے پانچ ہزار مقامی افراد اس جہاز کی موجودگی سے کچھ خوش نہیں ہیں۔ جہاز پر جیسے ہی پہلے مہاجر نے قدم رکھا تو قریب موجود کمپنیوں نے عدالت سے رجوع کیا کہ ان کی وجہ سے صنعتی علاقہ غیر محفوظ ہو گیا ہے اور ان کے کام کی جگہ محدود ہو گئی ہے۔ تاہم جج نے یہ درخواست رد کر دی۔

Published: undefined

مہاجرین کو ولندیزی زبان سکھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے اور انہیں ڈچ ثقافت کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ مہاجر بچے فوری سکول جانا شروع کرتے ہیں۔ دوسری جانب دائیں بازو کے رہنما گیئر ولڈرز کی جماعت 'پی وی وی‘ کی جانب سے جہاز میں موجود سیاسی پناہ کے کچھ متلاشیوں کی ٹک ٹاک ویڈیوز شائع کر کے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ ان افراد کو کھانا دیا جا رہا ہے جبکہ ڈچ خاندانوں کو افراط زر کی وجہ سے اپنے اخراجات ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Published: undefined

دیکھا گیا ہے کہ صرف ہالینڈ میں ہی نہیں بلکہ جرمنی میں بھی مہاجرین کو چھت فراہم کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران مہاجرین کی تعداد میں کمی آئی تھی تاہم افغانستان اور یوکرین کے حالات کی وجہ سے ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایمسٹرڈیم اور فیلسن نارڈ میں لنگرانداز ان جہازوں کو بھی چھ ماہ بعد واپس کرنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے معمول کے سفر پر دوبارہ روانہ ہو سکیں جبکہ مہاجرین کو نئے گھر تلاش کرنے ہوں گے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined