کولون یونیورسٹی کی افریقی علوم کی پروفیسر ماریانے بَیش ہاؤس گَیرسٹ کا کہنا ہے کہ نازی جرمن دور میں مارے جانے والے افریقی باشندوں کو پوری طرح بھلا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان افراد کو جس تشدد اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بارے میں کبھی بات نہیں کی گئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ کہنا مشکل ہو چکا ہے کہ نازی جرمن دور میں کتنے سیاہ فام باشندے مارے گئے تھے۔
Published: undefined
شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کے بلیک جرمن ہسٹری کے پروفیسر رابی ایٹکن کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ 1933ء میں نازی دور حکومت کے آغاز پر جرمنی میں کتنی تعداد میں سیاہ فام باشندے آباد تھے۔
Published: undefined
ان کا خیال ہے کہ سیاہ فام باشندے عمومی طور پر متحرک مزاج ہوتے ہیں اور وہ ایک مقام سے دوسری جگہ منتقل ہونے کو پسند کرتے ہیں۔ ان افراد کا تعلق مختصر مدت کے جرمن نوآبادیاتی دور سے تھا۔
Published: undefined
یہ نوآبادیاتی دور سن 1884 سے لے کر سن 1920 تک پھیلا ہوا تھا۔ رابی ایٹکن کے مطابق یہ اندازے لگائے گئے ہیں کہ سن 1933 میں سیاہ فام افراد اور ان کے خاندان نازی دور حکومت کے آغاز پر کسی دوسرے یورپی ملک منتقل ہو گئے تھے۔
Published: undefined
رابی ایٹکن کے مطابق افریقی جرمن آبادی کے ایک اور گروپ کو 'رائن لینڈ باسٹرڈز‘ (Rhineland Bastards) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ تضحیک آمیز اصطلاح نازیوں نے ان افراد کے لیے گھڑی تھی جو فرانسیسی فوجیوں اور مقامی افریقی خواتین کے اس دور کے تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے، جب یہ فرانسیسی فوجی پہلی عالمی جنگ کے دوران افریقی ممالک میں تعینات تھے۔
Published: undefined
شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کے اس پروفیسر کے مطابق یہ 600 سے لے کر 900 تک کی تعداد میں کم عمر بچے تھے۔ انہیں شامل کر کے سیاہ فام باشندوں کی آبادی زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار تک بنتی تھی۔ مردوں، خواتین اور بچوں کا جرمنی میں قیام یقیناﹰ عارضی تھا۔ اس قیام کے دوران ان کی گزر بسر میوزیکل پرفارمنس، کرتب دکھانے یا سفارت کاروں کے گھروں میں کام کاج کرنے سے ہوتی تھی۔
Published: undefined
جرمنی میں اکثر فٹ پاتھوں یا گلیوں کی دیواروں پر پیتل یا پھر پتھر کی بنی ایسی یادگاری پلیٹیں اور اینٹیں دکھائی دیتی ہیں، جن پر نام لکھے ہوتے ہیں۔ ان کو جرمن زبان میں شٹولپر شٹائنے (Stolpersteine) اور انگریزی میں اسٹمبلنگ اسٹونز (stumbling stones) کہا جاتا ہے۔ ان پر ان افراد کے نام درج ہوتے ہیں، جو نازیوں کے ہاتھوں ظلم سہتے ہوئے مارے گئے تھے۔ جرمنی میں صرف چار ایسی پیتل کی پلیٹیں ہیں، جن پر سیاہ فام افریقی جرمن افراد کے نام کندہ ہیں۔
Published: undefined
ایسے ایفرو جرمن افراد کے ناموں کی تعداد بہت عرصے تک صرف دو تھی۔ اس تعداد کا دوگنا ہو جانا حال میں اس وقت ہوا، جب رواں برس اگست میں جرمن دارالحکومت برلن میں مارتھا ایندُمبے اور فرڈیننڈ جیمز ایلن کے ناموں کی پلیٹیں لگائی گئیں۔ باقی دو میں سے ایک افریقی ملک تنزانیہ کے محجوب بن آدم محمد اور دوسرے جنوبی افریقی جرمن ہاگر مارٹن براؤن کے ناموں کی پلیٹیں پہلے ہی سے نصب ہیں۔
Published: undefined
برلن کی ماکس بیئر اشٹراسے نمبر چوبیس پر مارتھا ایندُمبے کے نام کی پلیٹ لگائی گی۔ اسی مقام پر ان کی رہائش تھی اور وہیں سے وہ گرفتار کی گئی تھیں۔ گرفتاری کے بعد انہیں نو جون سن 1944 کے روز راونزبرُک کے نازی اذیتی مرکز پہنچا دیا گیا تھا۔ وہ اسی نازی کیمپ میں پانچ فروری 1945ء کو دم توڑ گئی تھیں۔
Published: undefined
برلن میں اس سال اگست کے مہینے میں ہی ایک اور سیاہ فام جرمن شہری کے نام کی یادگاری پلیٹ شہر کی ٹور اشٹراسے نمبر 176-178 کے سامنے نصب کر دی گئی۔ نازی دور میں ہلاک کر دیے جانے والے فرڈیننڈ جیمز ایلن کی رہائش گاہ کا پتہ یہی تھا۔
Published: undefined
تمام عمر فرڈیننڈ جیمز ایلن کو زندگی گزارنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کی مرگی کی بیماری بھی تھی۔ انہیں سن 1933 میں نازی دور کے آغاز پر موروثی بیماریوں کے ایک مرکز میں لے جایا گیا ۔ چودہ مئی سن 1941 کو انہیں کئی دیگر بیمار افراد کے ساتھ بیرنبرگ کے نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined