اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے پیر کے روز بتایا کہ 43 ملکوں میں قحط کی دہلیز پر پہنچ چکے متاثرین کی تعداد بڑھ کر ساڑھے چار کروڑ ہوگئی ہے۔ ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکیوٹیو ڈائرکٹر ڈیوڈ بیئسلی نے بتایا کہ صرف رواں برس ایسے افراد کی تعداد میں 30 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے اور ”کروڑوں افراد گہری کھائی میں جھانکنے پر مجبور ہیں۔"
Published: undefined
ڈیوڈ بیئسلی نے ایک بیان میں کہا،” ہمارے سامنے جنگیں، ماحولیاتی تبدیلیاں اور کووڈ انیس جیسے بحران ہیں، جو بڑی تیزی سے بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں اور تازہ ترین اعدادشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ افراد قحط کی دہلیز تک پہنچ رہے ہیں۔"
Published: undefined
اس برس کے اوائل میں انتہائی قحط کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً چار کروڑ 20 لاکھ تھی جب کہ 2019 ء میں ایسے افراد کی تعداد دو کروڑ 70 لاکھ تھی۔ بالخصوص افغانستان میں خوراک کی عدم دستیابی کے بحران کا سامنا کرنے والوں کی تعداد اس اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔
Published: undefined
بیئسلی کے بقول ” انسانوں کے پیدا کردہ تصادم عدم استحکام میں اضافے کاسبب بن رہے ہیں اور قحط کی ایک تباہ کن نئی لہر کو تقویت دے رہے ہیں جو پوری دنیا کو اپنی زد میں لینے کی طاقت رکھتی ہے۔‘‘ خوراک کی بڑھتی ہوئی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں اضافہ کرنے والے ملکوں میں افغانستان کے علاوہ ایتھوپیا، ہیٹ ی، صومالیہ، انگولا، کینیا اور برونڈی شامل ہیں۔
Published: undefined
بیئسلی نے افغانستان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے حال ہی میں وہاں کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے یہ بیان دیا ہے۔ ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد اقو ام متحدہ کی فوڈ ایجنسی نے وہاں تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ افراد کے لیے اپنی امدادی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔
Published: undefined
بیئسلی کا کہنا تھا،” ایندھن مہنگا ہورہا ہے، کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہورہی ہیں۔ فرٹیلائزر زیادہ مہنگے ہوگئے ہیں اور یہ سب ایک نیا بحران پیدا کررہے ہیں۔ جیسا کہ اس وقت افغانستان میں اور ایک طویل عرصے سے جنگ کا سامنا کرنے والے شام اور یمن جیسے ملکوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔"
Published: undefined
ڈبیلو ایف پی نے بتایا کہ افغانستان” دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔اس ملک کی ضرورتیں دیگر بدترین متاثرہ ملکوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ متعدد خشک سالی کے سبب اقتصادی مندی پیدا ہوگئی ہے، لوگوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور انہیں اپنے بچوں کی تعلیم ترک کرا دینے اور بچیوں کی جلد شادی کردینے جیسے ” ہلاکت خیز متبادل" اختیار کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔"
Published: undefined
ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ اس دوران افغانستان سے ایسے خبریں بھی موصول ہورہی ہیں کہ لوگ اپنے خاندان کی زندگیاں بچانے کے لیے اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
Published: undefined
اس دوران عالمی بینک نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجودہ صورت حال میں امداد کا کوئی نظام نہیں اور اس کے جلد بحال ہونے کا امکان نہیں۔ عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ ملپاس نے افغانستان کے لیے براہ راست امداد کی جلد بحالی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا،''میں اپنے ادارے کو معیشت کی مکمل تباہی کے ماحول میں کام کرتا نہیں دیکھ رہا۔ درپیش مسائل میں سے ایک ادائیگی کا نظام ہے۔ موجودہ حکومت جو بھی کر رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے رقم کی فراہمی حقیقت میں جاری رکھنے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں۔"
Published: undefined
عالمی بینک نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سلامتی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے خدشات کے پیش نظر افغانستان کی امداد روک دی تھی۔ بینک نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہوئے اس کا تجزیہ کر رہا ہے۔
Published: undefined
ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں قحط کو ٹالنے کے لیے فوری طورپر سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس سال کے اوائل میں چھ ارب 60 کروڑ ڈالر کی امداد کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ ڈبلیو ایف پی کے مطابق اتنی رقم سے اگلے برس تک ہر فرد کو روزانہ ایک وقت کا کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined